الحمد للہ.
اول:
ہمارى اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى بہن كى مدد فرمائے، اور اسے اس مصيبت سے نجات دلائے، اور اس كے خاوند كو ہدايت نصيب كرتے ہوئے اس كبيرہ گناہ سے نجات دے.
رہا اس شخص كے ساتھ رہنے كا حكم كہ آيا اس كے ساتھ رہنا جائز ہے يا نہيں ، تو اس كے متعلق گزارش ہے كہ اگر اسے اپنے اور اولاد كے متعلق كوئى خطرہ نہيں تو اس كے ساتھ رہنا جائز ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميرى رائے يہ ہے كہ: جب اس نے خاوند كو نصيحت بھى كى اور اس نصيحت كا كوئى فائدہ نہيں ہوا، تو بيوى كو فسخ نكاح طلب كرنے كا حق حاصل ہے، ليكن ہو سكتا ہے كچھ ايسے اسباب ہوں جن كى بنا پر فسخ نكاح نہ ہو سكے كيونكہ اس كى اولاد بھى ہے تو اس طرح فسخ نكاح ميں مشكلات ہو سكتى ہيں اس ليے اگر اس كى مصيبت و تنگى حد كفر تك نہ پہنچتى ہو تو پھر خاوند كے ساتھ رہنے ميں كوئى حرج نہيں تا كہ خرابى سے بچا جا سكے.
ليكن اگر يہ معاملہ كفر تك جا پہنچے مثلا يہ كہ خاوند نماز ادا نہ كرتا ہو تو پھر ايسے شخص كے ساتھ ايك لمحہ بھى نہيں رہا جا سكتا "
ديكھيں: اللقاء المفتوح ( 518 ).
دوم:
عورت كو يہ نصيحت ہے كہ اسے اس سلسلہ ميں اپنى مصلحت كو مدنظر ركھنا چاہيے اور پھر اپنے گھر والوں اور اقربا سے بھى مشورہ كرنا چاہيے كيونكہ اس كى حالت كو وہ زيادہ سمجھتے اور جانتے ہيں، اور پھر اس كے بعد وہ اللہ تعالى سے استخارہ بھى كرے اللہ تعالى اسے ضائع نہيں كريگا.
حديث ميں آتا ہے كہ:
" جس نے استخارہ كيا اور مشورہ كيا وہ كبھى ذليل و نادم نہيں ہوتا "
چنانچہ جب وہ فسخ نكاح كو اختيار كرے يا پھر خاوند كے ساتھ رہنا اختيار كرے تو اسے اللہ كى قضاء و قدر پر راضى رہنا ہوگا اور اسے صبر كرتے ہوئے اجروثواب كى نيت ركھنا ہوگى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور صبر كرنے والوں كو خوشخبرى دے دو البقرۃ ( 155 ).
واللہ اعلم .