سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا ايك ہى برس ميں حج كسى شخص كى جانب سے اور عمرہ كسى دوسرے كى جانب سے ادا ہو سكتا ہے ؟

47624

تاریخ اشاعت : 05-12-2006

مشاہدات : 5462

سوال

ايسے شخص كا حكم كيا ہے جو حج كے ليے گيا تو عمرہ كى نيت والدہ اور حج كى نيت والد كى جانب سے كى، اور دوسرے برس اس كے برعكس حج والدہ كے ليے عمرہ والد كے ليے كرتا تو كيا يہ جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

" حج اور عمرہ دونوں عليحدہ اور مستقل عبادات ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حج قران اور تمتع اور افراد كى كيفيت اور ادائيگى كا طريقہ بيان فرما ديا ہے، لہذا جو كوئى بھى مثلا عمرہ والدہ كى جانب سے كرنا چاہتا ہے اور عمرہ مكمل كرنے كے اور حلال ہو جانے كے بعد حج اپنے والد كى جانب سے كرنا چاہتا ہے تو اسے يہ حق ہے.

اور اگر وہ دونوں حج يا عمرہ ميں كوئى ايك اپنے ليے كرنا چاہتا ہے، اور اس سے حلال ہونے كے بعد وہ دوسرے كا احرام باندھتا ہے مثلا والد كى جانب سے تو يہ جائز ہے؛ كيونكہ اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ہو " انتہى .

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 58 )