الحمد للہ.
اول :
جومکہ میں ہو اورعمرہ کرنا چاہے تواس کےلیے حرم کی حدود سے باہرجانا واجب ہے تا کہ وہ عمرے کا احرام باندھ سکے ، اورمکہ سے عمرہ کا احرام باندھنا جائز نہيں ، اوراگروہ ایسا کرتا ہے توجمہورعلماء کرام کے ہاں اس پردم لازم آئے گا ، یعنی مکہ میں ایک بکری ذبح کرکے حرم کے مساکین میں تقسیم کیا جائے گا ۔
امام بخاری اورامام مسلم رحمہمااللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا ہے وہ کہتی ہيں کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ۔۔۔۔ وہ حدیث ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں :
جب ہم نے حج مکمل کرلیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عبدالرحمن بن ابی بکر کے ساتھ تنعیم بھیجا تومیں نے عمرہ کیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1556 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1211 ) ۔
اورایک حدیث میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے عمرہ کیا ہے اورمیں نے عمرہ نہيں کیا تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اے عبدالرحمن اپنی بہن کوتنعیم لے جاؤ تواس نے انہيں اونٹنی پرسواراپنے پیچھے سوار کیا توعائشہ رضي اللہ تعالی نے عمرہ کیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1215 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1211 ) ۔
اوربخاری ومسلم کی ایک روایت میں ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن رضي اللہ تعالی عنہ کوفرمایا :
( اپنی بہن کوحرم سے باہر لے تاکہ وہ عمرہ کا احرام باندھ لے ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
( اپنی بہن کوحرم سےباہرلے جاؤتا کہ وہ عمرہ کا احرام باندھ لے ) اس میں علماء کرام کے اس قول کی دلیل ہے کہ جومکہ میں ہواورعمرہ کرنا چاہے تواس کا میقات قریب ترین حل ہے ، اوراس کےلیے حرم کی حدود میں سے احرام باندھنا جائز نہيں ۔۔۔۔
علماء کرام کا کہنا ہے : حل میں نکلنا اس لیے واجب ہے تا کہ وہ اپنے نسک اورعبادت میں حل وحرم کوجمع کرلے ، جس طرح ایک ایک حاجی ان دونوں کے مابین جمع کرتا ہے کیونکہ وہ میدان عرفات میں وقوف کرتا ہے جوکہ حل ( یعنی حدود حرم سے باہر) میں ہے پھر وہ مکہ میں طواف وغیرہ کے لیے داخل ہوتا ہے ، یہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کے مذھب کی تفصیل ہے ۔
اورجمہورعلماء کرام نے بھی ایسا ہی کہا ہے کہ عمرہ کے احرام کے لیے قریب ترین حل کی جانب نکلنا واجب ہے ، اوراگراس نے حرم کی حدود سے ہی عمرے کا احرام باندھ لے اورحرم کی حدود سے باہرنہ جائے تواس پردم لازم آتا ہے ، اورعطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں اس پرکچھ لازم نہيں ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں اس کا احرام حل نکلے بغیر ہوتا ہی نہیں ۔
اورقاضي عیاض اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : خاص کرعمرہ کا احرام تنعیم سے باندھنا ضروری ہے ، وہ کہتے ہیں کہ یہ مکہ سے عمرہ کرنے والوں کا میقات ہے ، اوریہ قول شاذ اورمردود ہے ، اور جمہورعلماء کرام اس پرہیں کہ حل کی ساری جانبیں برابر ہیں اورتنعیم کے ساتھ ہی خاص نہيں ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ اھـ
اورجومکہ میں ہو اورحج کا احرام باندھنا چاہے تووہ مکہ میں اپنی جگہ سے ہی احرام باندھے اسے حل کی طرف نکلنا لازم نہیں اوراس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اوراہل شام کے لیے جحفہ اوراہل نجد کے لیے قرن منازل ، اوراہل یمن کے لیے یلملم کومیقات مقرر کیا اورفرمایا :
( یہ میقات والوں کے لیے اوران کے لیے بھی ہیں جوان کےعلاوہ حج اورعمرہ کے لیے ان سے گزریں ان کے لیے بھی میقات ہے ، اورجولوگ ان کے اندر رہتے ہيں وہ جہاں سے باندھے حتی کہ مکہ کے رہائشی مکہ سے ہی احرام باندھیں گے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1524 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1181 ) ۔
حافظ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
( حتی کہ اہل مکہ مکہ سے ) یعنی انہيں اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ احرام کے لیے میقات کی طرف نکلیں بلکہ وہ مکہ سے ہی احرام باندھیں اوریہ حاجی کے ساتھ خاص ہے لیکن عمرہ کرنے والے کےلیے واجب ہے کہ وہ قریب ترین حل کی طرف نکلے ، محب طبری کہتے ہیں : مجھے یہ علم نہيں کہ کسی نے عمرہ کے لیے مکہ کومیقات مقرر کیا ہو ۔ اھـ
اورشیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی مناسک الحج والعمرۃ میں میقات کا ذکر کرنے کےبعدکہتے ہيں :
توان میقات سے مکہ کے قریب رہنے والوں کے لیے میقات اس کی رہائشی جگہ ہی ہے وہ وہیں سے احرام باندھے گا ، حتی کہ اہل مکہ بھی مکہ سے ہی احرام باندھے گے لیکن عمرہ کا نہيں لھذا جوحرم کی حدود میں رہتا ہے وہ قریب ترین حل سے احرام باندھے گا ۔ اھـ
پھراوپربیان کی گئي عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا والی حدیث ذکر کی جس میں وہ اپنے بھائي عبدالرحمن کے ساتھ تنعیم گئي تھیں ۔
دیکھیں : مناسک الحج والعمرہ صفحہ نمبر ( 27 ) ۔
دوم :
مکہ میں بکری ذبح کرکے اس کا گوشت حرم کے مساکین میں تقسیم کرنا واجب ہے اورمکہ سے باہر تقسیم کرنا جائز نہيں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے احرام کی حالت میں شکارکرنے کے فدیہ کے بارہ میں فرمایاہے :
اے ایمان والو ! جب تم احرام کی حالت میں ہو شکارکوقتل نہ کرو اورجوشخص تم میں سے اس کوجان بوجھ کرکرے گا تواس پرفدیہ واجب ہوگا جوکہ اس جانورکے مساوی ہوجس کواس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دومعتبرشخص کردیں خواہ وہ فدیہ خاص چوپايوں میں سے ہو جونیاز کے طور پرکعبہ تک پہنچایاجائے المآئدۃ ( 95 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پراللہ تعالی کا فرمان ہے :
پھران کے حلال ہونے کی جگہ خانہ کعبہ ہے ۔
لجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے کچھ ایسے لوگوں کے بارہ میں جنہوں نے مکہ کے ایک محلہ کدی سے ہی عمرہ کا احرام باندھا اورتنعیم نہيں گئے سوال کیا گيا ؟
تولجنۃ الدائمۃ کا جواب تھا :
کدی سے عمرہ کااحرام باندھنے والوں نے غلطی کی کیونکہ کدی حل میں داخل نہيں بلکہ حرم میں ہے اوریہ تنعیم اورنہ ہی جعرانہ کی طرح ہے ، کیونکہ تنعیم اورجعرانہ دونوں ہی حل میں ہیں ، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے عمرہ کیا ہے لیکن تنعیم سے عمرہ نہیں کیا ، بلکہ عبدالرحمن بن ابی بکررضي اللہ تعالی عنہما کوحکم دیا تھا کہ وہ اپنی بہن عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوتنعیم لےجائے تاکہ وہ عمرے کا احرام باندھ لیں ، کیونکہ حرم کے سب سے نزدیک تنعیم ہے ۔
اوراگرحرم کی حدود کے اندرسے عمرہ کا احرام شرعی طورپرجائز ہوتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوحکم دیتے کہ وہ اپنی جگہ ابطح سے ہی احرام باندھ لیں اوران کے بھائي کوانہيں تنعیم لےجانے کا نہ کہتے کیونکہ اس میں بغیرکسی وجہ کے ہی مشقت تھی اوروہ مسافربھی تھے ۔
اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودومعاملوں میں اختیاردیاجاتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے آسان کواختیارکرتے تھے اگروہ گناہ نہ ہوتا ، اورکدی کوتنعیم اورجعرانہ پرقیاس کرنا صحیح نہیں ، کیونکہ میقات سے احرام باندھنا ایک تعبدی عمل ہے اوران کا عمرہ صحیح ہے ،اورحرم میں سے احرام باندھنے کی بنا پرہرایک کے ذمہ ایک بکری ذبح کرنا ہوگی ۔ اھـ
اورشیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی فتاوی ارکان اسلام میں کہتےہیں :
لھذا جوبھی حج یا عمرہ کرنا چاہے توجب وہ میقات سے گزرے تووہاں سے احرام باندھے اوراسے تجاوز نہ کرے ، اگراس نے میقات بغیر احرام تجاوز کرلیا تواس پرواجب ہے کہ وہ میقات پرواپس آکراحرام باندھے ، اورجب وہ واپس آ کرمیقات سے احرام باندھ لے تواس پردم نہيں ، اوراگروہ اپنی ہی جگہ سے احرام باندھ لے اورمیقات پرواپس نہ جائے تواہل علم کے ہاں اس کے ذمہ فدیہ ہوگا جومکہ میں ذبح کرکے مکہ کے فقراء میں تقسیم کرے گا ۔ اھـ
دیکھیں : فتاوی ارکان اسلام صفحہ نمبر ( 515 ) ۔
واللہ اعلم .