سوموار 11 ربیع الثانی 1446 - 14 اکتوبر 2024
اردو

سفر سے واپس آنے والے مسافر پر كھانے پينے سے ركنا لازم نہيں

سوال

ميں سفر ميں تھا، اور سفر كى بنا پر روزہ نہيں ركھا، پھر ميں اپنے شہر واپس آيا تو ميرا روزہ نہيں تھا، تو كيا ميرے ليے اپنے شہر ميں كھانا پينا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس مسافر واپس پلٹ آئے اور اس كا روزہ نہ ہو، يا پھر عورت حيض سے پاك ہو جائے، يا مريض دن ميں شفايابى حاصل كر لے تو اس دن كے باقى حصہ ميں اس كے ليے كھانے پينے سے ركنا لازم ہے يا نہيں اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے ؟

جمہور علماء كرام كے ہاں اگر تو كھانے پينے سے ركنا لازم نہيں، كيونكہ انہوں نے عذر كى بنا پر روزہ نہيں ركھا تھا.

ليكن وہ ان لوگوں كے سامنے اعلانيہ طور پر نہيں كھائيں گے جنہيں ان كے عذر كا علم نہيں، تا كہ ان كے متعلق سوء ظن كا باعث نہ بنے.

ديكھيں: المجموع ( 6 / 167 - 173 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:

" جس شخص كے ليے ظاہر اور باطنى طور پر دن كے شروع ميں روزہ نہ ركھنا مباح ہو مثلا حائضہ ا ور نفاس والى عورت، اور مسافر، بچہ، مجنون و پاگل، كافر، اور مريض، جب دن كے دوران ان كا عذر زائل ہو جائے تو حائضہ اور نفاس والى عورت پاك ہو جائے، اور مسافر مقيم، اور بچہ بالغ ہو جائے، اور مجنون عقلمند، اور كافر اسلام قبول كر لے، اور بے روزہ مريض شفاياب ہو جائے تو اس ميں دو روايتيں ہيں:

پہلى: ان كے ليے دن كا باقى حصہ بغير كھائے پيئے گزارنا لازم ہے، امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا يہى قول ہے.

دوسرى روايت: ان پر كھانے پينے سے ركنا لازم نہيں، امام مالك، امام شافعى رحمہم اللہ كا يہى قول ہے، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ: جس نے دن كى ابتدا ميں كھايا تو وہ دن كے آخر ميں بھى كھائے" اھـ

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ميں نے سنا ہے كہ آپ نے يہ فتوى ديا ہے كہ: جب حائضہ عورت رمضان ميں دن كے وقت پاك ہو جائے تو وہ كھا پى سكتى ہے اور دن كا باقى حصہ كھانے پينے نہ ركے، اور اسى طرح مسافر بھى جب دن ميں اپنے شہر واپس آجائے تو كيا يہ صحيح ہے ؟ اور اس كى وجہ كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" جى ہاں، آپ نے جو كچھ سنا ہے كہ ميں نے يہ كہا ہے جب حائضہ عورت دن كے دوران پاك ہو جائے تو اس پر كھانے پينے سے ركنا واجب نہيں، اور اسى طرح جب مسافر سفر سے واپس پلٹ آئے، تو ميرى طرف سے يہ كلام صحيح ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى كى ايك روايت يہى ہے، اور امام مالك اور امام شافعى رحمہما اللہ تعالى كا بھى مسلك يہى ہے.

اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ: ( جس نے دن كے پہلے حصہ ميں كھايا وہ دن كے آخرى حصہ ميں بھى كھائے ).

اور جابر بن يزيد ( يہ ابو شعثاء تابعين ميں سے ايك فقيہ و امام ہيں ) رحمہ اللہ سے مروى ہے كہ وہ سفر سے واپس آئے تو انہوں نے اپنى بيوى كو ديكھا كہ وہ اسى دن حيض سے پاك ہوئى ہے، تو انہوں نے اس سے جماع كيا يہ دونوں اثر المغنى ميں ذكر كيے گئے ہيں، اور ان كا كوئى تعاقب نہيں كيا گيا.

اوراس ليے بھى كہ كھانے پينے سے ركنے كا كوئى فائدہ نہيں، كيونكہ اس دن كا روزہ تو اسى وقت صحيح ہو گا جب فجر سے ركھا گيا ہو.

اور اس ليے بھى كہ رمضان كا علم ہونے كے باوجود ان كے ليے دن كےاول ميں ظاہرى اور باطنى طور پر كھانا پينا مباح كيا گيا ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى نے تو طلوع فجر سے ممانعت كى ہے، اور ان لوگوں پر اس وقت روزہ واجب نہيں تھا، تو كھانے پينے سے ركنے كے حكم ميں بھى نہيں آتے.

اور اس ليے بھى كہ اللہ تعالى نے مسافر پر چھوڑے ہوئے روزوں كے بدلے دوسرے دنوں ميں گنتى پورى كرنا واجب كيا ہے، اور اسى طرح حائضہ عورت پر بھى، اور اگر ہم ان پر كھانا پينے سے ركنا واجب كريں تو اس پر ہم نے اللہ تعالى سے واجب كردہ سے زيادہ كو واجب كر ديا؛ كيونكہ اس وقت ہم اس پر اس دن كى قضاء كے ساتھ دن كا باقى حصہ كھانے پينے سے ركنا بھى واجب كر رہے ہيں، تو اس طرح ہم نے اس پر دو چيزيں واجب كيں حالانكہ صرف ايك چيز ان ايام كى قضاء واجب ہے جس كے روزے نہيں ركھے، اور يہ عدم وجوب كى ظاہر ترين دليل ہے.... ليكن اگر اس سے خرابى پيدا ہونے كا انديشہ ہو تو اسے چاہيے كہ وہ اعلانيہ طور پر نہ كھائے پيئے" اھـ

ديكھيں: فتاوى الصيام صفحہ نمبر ( 102 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

" جب مسافر رمضان ميں دن كے دوران سفر سے واپس پلٹ آئے اور اس نے روزہ نہ ركھا ہو اور اپنى بيوى كو دن كے دوران حيض يا نفاس سے پاك پائے يا بيمارى سے اس كى بيوى دن ميں شفاياب ہو گئى ہو اور اس نے روزہ نہ ركھا ہو تو وہ اس سے ہم بسترى كر سكتا ہے، ہمارے نزديك بغير كسى اختلاف كے اس پر كوئى كفارہ نہيں " اھـ

ديكھيں: المجموع للنووى ( 6 / 174 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب