جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

توحيد كا معنى اور اس كى اقسام

سوال

توحيد كا معنى اور اس كى اقسام كيا ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

توحيد كا لغوى معنى:

توحيد لغت عرب ميں وَحَّدَ يُوَحِّدُ فعل كا مصدر ہے اور جب اس كى نسبت اللہ كى وحدانيت كى طرف كى جائے اور اسے ان صفات و ذات ميں شريك ہونے سے انفرادى وصف ديا جائے تو يہ وحدانيت كا وصف كہلاتا ہے، اور شد مبالغہ كے ليے ہے يعنى اللہ كى وحدانيت كا وصف مبالغہ ركھتا ہے.

اور عرب كا قول ہے: واحد و احد و وحيد يعنى وہ منفرد ہے چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى واحد ہے يعنى وہ سب حالات ميں شريكوں سے منفرد ہے.

چنانچہ توحيد اس بات كا علم ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى ايك ہے اس كى كوئى نظير نہيں، تو جو كوئى بھى اللہ كا علم اس طرح نہيں ركھتا، يا پھر وہ اسے وحدہ لا شريك كا وصف نہيں ديتا تو وہ اللہ كو ايك نہيں مانتا.

توحيد كى اصطلاحى تعريف:

اللہ تعالى كو الوہيت و ربوبيت اور اسماء صفات ميں يكتا و اكيلا ماننا.

اور يہ تعريف بھى ممكن ہے: يہ اعتقاد ركھنا كہ اللہ اپنى ربوبيت و الوہيت اور اسماء صفات ميں وحدہ لا شريك ہے.

اس اصطلاح " توحيد " يا اس كے مشتقات كا اس معنى پر دلالت كرنے كے ليے استعمال كتاب و سنت سے ثابت ہے اور كتاب و سنت ميں استعمال كيا گيا ہے، ذيل ميں اس كى چند ايك مثاليں پيش كى جاتى ہيں:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

قل ھوا اللہ احد اللہ الصمد لم يلد و لم يولد و لم يكن لہ كفوا احد .

آپ كہہ ديجئے كہ وہ اللہ ايك ( ہى ) ہے، اللہ تعالى بے نياز ہے، نہ اس سے كوئى پيدا ہوا نہ وہ كسى سے پيدا ہوا، اور نہ كوئى اس كا ہمسر ہے.

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

اور تم سب كا معبود ايك ہى ہے، اس كے سوا كوئى معبود برحق نہيں، وہ بہت رحم كرنے والا اور بڑا مہربان ہے البقرۃ ( 163 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت نے فرمايا:

وہ لوگ بھى قطعا كافر ہو گئے جنہوں نے كہا اللہ تعالى تين ميں سے تيسرا ہے، در اصل اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں، اگر يہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان ميں سے جو كفر پر رہيں گے انہيں المناك عذاب ضرور پہنچے گا المآئدۃ ( 73 ).

اس موضوع كے متعلق آيات بہت زيادہ ہيں.

اور صحيح بخارى و مسلم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ كو اہل يمن كى طرف بھيجا تو انہيں فرمايا:

" آپ ايسى قوم كے پاس جا رہے ہيں جو اہل كتاب ہے تم انہيں سب سے پہلے اس كى دعوت دينا كہ وہ اللہ تعالى كى توحيد كا اقرار كريں، جب وہ اس كى پہچان كر ليں تو انہيں بتانا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان پر دن اور رات ميں پانچ نمازيں فرض كي ہيں، جب وہ نماز ادا كرنے لگيں تو انہيں بتانا كہ اللہ تعالى نے ان پر ان كے اموال ميں زكاۃ فرض كى ہے جو ان كے اغنياء سے لے كر ان كے فقراء كو دى جائيگى، جب وہ اس كا اقرار كر ليں تو ان سے زكاۃ لے لينا، اور لوگوں كے بہترين اورافضل اموال سے اجتناب كرنا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7372 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 19 ).

اور صحيح مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس پر كہ اللہ كو ايك مانا جائے، اور نماز كى پابندى كى جائے، اور زكاۃ كى ادائيگى كى جائے، اور رمضان المبارك كے روزے ركھے جائيں، اور بيت اللہ كا حج كيا جائے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).

چنانچہ ان سب نصوص ميں توحيد سے مقصود كلمہ طيبہ " لا الہ الا اللہ محمدا رسول اللہ " كے معنى كا اثبات ہے، جو كہ دين اسلام كى حقيقت ہے، جس كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو مبعوث كيا ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ يہ اصطلاح اور كلمات مترادفہ كتاب ميں سنت ميں كئى ايك مقام پر وارد ہيں.

ان ميں سے بعض الفاظ تو سابقہ حديث معاذ رضى اللہ تعالى عنہ ميں بيان ہوئے ہيں:

" كہ تم اہل كتاب كے لوگوں كے پاس جا رہے ہو جب ان كے پاس پہنچو تو انہيں اس كى دعوت دينا كہ وہ يہ گواہى ديں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے رسول ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1496 ).

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى روايت ميں ہے:

" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس كى گواہى دينا كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).

تو يہ اس كى دليل ہے كہ كہ كلمہ طيبہ " لا الہ الا اللہ محمدا رسول اللہ " كى حقيقت توحيد ہے، اور يہى وہ اسلام ہے جسے ديكر اللہ تعالى نے اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو جن و انس كى طرف مبعوث فرمايا، اور يہى وہ دين ہے جس كے بغير اللہ تعالى كسى اور دين اختيار كرنے پر راضى نہيں ہو گا.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

يقينا اللہ كے ہاں دين صرف اسلام ہے آل عمران ( 19 ).

اور ايك دوسرے مقام اللہ جل شانہ كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اسلام كے علاوہ دين اپنائے گا اس كا وہ دين قبول نہيں كيا جائيگا، اور وہ آخرت ميں نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہو گا آل عمران ( 85 ).

جب يہ معلوم ہو گيا تو يہ بھى علم ميں ہونا چاہيے كہ علماء كرام نے توحيد كو تين قسموں ميں تقسيم كيا ہے جو درج ذيل ہيں:

توحيد ربوبيت

توحيد الوہيت

توحيد اسماء و صفات

توحيد ربوبيت:

اللہ تعالى كو اس كے افعال مثلا خلق اور تدبير اور زندہ كرنے اور مارنے روزى دينے وغيرہ افعال ميں يكتا ماننا.

اس توحيد كے كتاب و سنت ميں بہت دلائل پائے جاتے ہيں ان ميں سے بعض دلائل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13532 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

لہذا اگر كسى نے يہ اعتقاد ركھا كہ اللہ كے علاوہ اور بھى كوئى خالق ہے، يا مالك ہے يا روزى رساں ہے، يا اللہ كے علاوہ كوئى اور اس جہان ميں تصرف كرنے والا ہے تو اس نے توحيد كى اس قسم ميں خلل پيدا كيا اور اللہ كے ساتھ كفر كيا.

كيونكہ پہلے دور كے كفار اور مشركين مكہ بھى اس توحيد كا اجمالى طور پر اقرار كرتے تھے، اگرچہ وہ اس كى بعض تفصيل ميں مخالفت بھى كرتے تھے، اس كے اقرار كى دليل بہت سارى آيات ميں پائى جاتى ہے جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور اگر آپ ان سے يہ سوال كريں كہ آسمان و زمين كو كس نے پيدا كيا، اور سورج اور چاند كو كس نے مسخر كيا ؟ تو البتہ وہ ضرور يہ كہينگے اللہ نے، تو وہ كدھر الٹے جا رہے ہيں العنكبوت ( 61 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

اور اگر آپ ان سے دريافت كريں كہ آسمان نے پانى كس نے نازل كيا اور اس سے زمين كو بنجر ہونے كے بعد زندہ كس نے كيا ؟ تو وہ ضرور كہينگے اللہ نے، آپ كہہ ديں سب تعريفات اللہ ہى كى ہيں، بلكہ ان ميں اكثر عقل نہيں ركھتے العنكبوت ( 63 ).

اور ايك مقام پر رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:

اور اگر آپ ان سے دريافت كريں كہ انہيں كس نے پيدا كيا ہے ؟ تو وہ ضرور كہينگے اللہ نے، پھر وہ كدھر الٹے جا رہے ہيں الزخرف ( 87 ).

ان آيات ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے بيان فرمايا ہے كہ كفار بھى اس كا اقرار كرتے تھے كہ اللہ تعالى خالق و مالك اور مدبر ہے، ليكن اس كے باوجود انہوں نے عبادت ميں اللہ كى توحيد كا انكار كيا جو ان كے عظيم ظلم اور شديد بہتان اور ضعف عقل كى دليل تھى، كيونكہ ان صفات كا مالك اور ان افعال ميں انفراديت ركھنے والے كى ہى عبادت كرنى چاہيے، اور اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت نہ ہو، اور صرف اس اللہ كو ہى يكتا و تنہا اور ايك مانا جائے، اللہ سبحانہ و تعالى پاك اور بلند و بالا ہے اس سے جو وہ شرك كرتے ہيں.

اس ليے جو كوئى بھى توحيد ربوبيت كا صحيح اقرار كرتا ہو اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ توحيد الوہيت كا بھى اقرار كرے.

توحيد الوہيت يہ ہے كہ:

اللہ تعالى كو ہر قسم كى ظاہرى اور باطنى قولى و عملى عبادت ميں يكتا و اكيلا مانا جائے، اور اللہ كے سوا باقى سب كى عبادت كى نفى كى جائے چاہے وہ كوئى بھى ہو، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تيرا پروردگار صاف صاف حكم دے چكا ہے كہ تم اس كے سوا كسى اور كى عبادت نہ كرنا الاسراء ( 23 ).

اور ايك مقام پر رب العزت كا فرمان ہے:

اور اللہ تعالى كى عبادت كرو اور اس كے ساتھ كسى كو شريك نہ كرو النساء ( 36 ).

اور اسے توحيد اللہ افعال العباد كہنا بھى ممكن ہے، اور اسے توحيد الوہيت كا نام بھى ديا جاتا ہے:

كيونكہ يہ اللہ كى عبادت اور اسے الہ معبود تسليم كرنے پر مبنى ہے، كہ اللہ كى عبادت محبت و تعظيم كے ساتھ كى جائے.

اور اسے توحيد عبادت بھى كہا جاتا ہے:

كيونكہ بندہ اللہ تعالى كے احكام كى ادائيگى اور ممنوعات سے اجتناب كرتے ہوئے اللہ كى عبادت كرتا ہے.

اور اسے توحيد طلب اور قصد و ارادہ كا نام بھى ديا جاتا ہے؛ كيونكہ بندہ كا مقصد و ارادہ اللہ كى رضامندى و خوشنودى ہے اور خالصتا اللہ كى رضا طلب كرتے ہوئے خالص اسى كى عبادت كرتا ہے.

يہى وہ قسم اور نوع ہے جس ميں خلل پايا جاتا ہے، اور اسى توحيد الوہيت كى بنا پر اللہ سبحانہ و تعالى نے رسول مبعوث كيے اور كتابيں نازل فرمائيں، اور اسى كى وجہ سے مخلوقات پيدا كى گئيں، اور شريعت بنائى گئيں، اور يہى وہ توحيد الوہيت ہے جس ميں انبياء اور ان كى قوموں كے درميان جھگڑا ہو، اور مخالفت كرنے والے ہلاك كر ديے گئے اور مومنوں كو نجات حاصل ہوئى.

اس ليے جس نے بھى اس توحيد الوہيت ميں خلل پيدا كيا اور كسى بھى قسم كى عبادت اللہ كے علاوہ كسى اور كے ليے جائز سمجھا تو وہ ملت اسلاميہ سے خارج ہو گيا اور فتنہ ميں پڑ گيا اور سيدھى راہ سے بھٹك گيا، اللہ تعالى ہميں سلامت و محفوظ ركھے.

اور توحيد اسماء و صفات يہ ہے كہ:

اللہ كے اسماء و صفات ميں اللہ كو يكتا و تنہا مانا جائے، اس ليے بندے كو يہ اعتقاد ركھنا چاہيے كہ اللہ تعالى كے اسماء و صفات ميں اس كا كوئى مثل نہيں، يہ توحيد دو اساسى اشياء پر مبنى ہے:

پہلى اساس:

اثبات:

يعنى اسماء حسنى اور صفات على ميں سے جسے اللہ تعالى نے اپنے ليے ثابت كيا ہے، يا پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ كے ثابت كيا ہے اسے بغير كسى تشبيہ و مثال كے اسى طرح ثابت كيا جائے جس طرح اللہ كے شايان شان ہے، اور اس كے معانى ميں كسى بھى قسم كى تحريف و تاويل نہ كى جائے اور نہ ہى اس كے حقائق كو معطل كيا جائے اور نہ ہى اس كى كيفيت بيان كى جائے.

دوسرى اساس:

تنزيہ: كہ اللہ سبحانہ و تعالى كو ہر قسم كے عيب سے منزہ و پاك مانا جائے، اور ان صفات نقص كى اللہ سے نفى كى جائے جن كى اللہ نے خود نفى كى ہے، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

اس كى مثل كوئى چيز نہيں، اور وہ سميع و بصير ہے .

يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے آپ كو مخلوق كى مماثلت سے منزہ كيا ہے، اور اپنے ليے صفات كمال ثابت كى ہيں جس طرح اللہ كے شايان شان ہيں.

ديكھيں: الحجۃ فى ببيان المحجۃ ( 1 / 305 ) اور لوامع الانوار البھيۃ ( 1 / 57 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب