الحمد للہ.
اول:
جب كسى دوسرے ملك ميں كسى شخص كا كوئى عزيز كا قريبى دوست فوت ہو جائے تو اگر وہاں جانے ميں آسانى ہو تو اس كى نماز جنازہ ميں وہاں كا سفر كرنا جائز ہے، كيونكہ اس سفر ميں شرعى مصلحت ہے، اور اگرچہ يہ عمل پچھلے دور ميں مسلمانوں كے ہاں معروف نہيں تھا، اس ليے كہ ايسا كرنا ممكن نہ تھا ليكن آج دور جديد ميں سفر كے تيز وسائل آسان ہونے كى بنا پر ايسا كرنا ممكن ہے.
رہا غائبانہ نماز جنازہ كا مسئلہ تو اس ميں علماء كرام كا بہت زيادہ اختلاف پايا جاتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نجاشى كے علاوہ كسى اور كى غائبانہ نماز جنازہ ثابت نہيں، اور نہ ہى يہ منقول ہے كہ مدينہ سے باہر كسى اور شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عظيم محبت ہونے كے باوجود ان كى نماز جنازہ ادا كى ہو.
اور اسى طرح خلفاء راشدين كے متعلق بھى يہ ثابت نہيں ہوتا كہ جب ان ميں كوئى فوت ہوا تو ان كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كى گئى ہو، ليكن غائبانہ نماز جنازہ كا متقضى ہونے كے باوجود مسلمانوں سے ايسا كرنا معروف نہيں رہا، جو كہ مسلمانوں كا اپنے بھائيوں كو نفع دينے كى حرص ركھنا ہے، اور خاص كر جس شخص كى عام مسلمانوں كے دلوں ميں محبت ہو، يا پھر اس كے ساتھ رشتہ دارى يا ايسى محبت جو اس كى نماز جنازہ ادا كر كے صلہ رحمى اور قرابت دارى اور نيكى و احسان كرنے كو واجب كرتى ہو.
اسى ليے علماء كرام جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ نے يہ اختيار كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نجاشى كى نماز جنازہ ادا كرنا آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى خصوصيت ميں شامل ہوتا ہے، كيونكہ نجاشى كے ملك ميں اس كى نماز جنازہ ادا كرنے والا كوئى شخص نہ تھا، ميرى نظر ميں مندرجہ بالا توجيہ كى بنا پر يہ قول قوى معلوم ہوتا ہے، اور كچھ علماء نے تو امت كے معين قسم كے لوگ مثلا مشہور علماء كرام، اور عادل حكمرانوں كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كرنا مخصوص كيا ہے، اور يہ بھى پہلے قول كے قريب ہى ہے.
اس بنا پر حاضر اور غائب ميت كى نماز جنازہ ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
دوم:
رہا جمع ہو كر قرآن مجيد كى تلاوت كر كے اس كا ميت كو ايصال ثواب كرنے كا مسئلہ تو يہ بدعت ہے، چاہے يہ كام بغير اجرت كے كيا جائے، اور اگر يہ كام اجرت لے كر كيا جائے تو يہ حرام ہے، كيونكہ يہ عمل غير اللہ كے ليے ہے، اور جو ايسا ہو اس كا ثواب نہيں ملتا، ليكن اگر كوئى شخص خود قرآن مجيد پڑھ كر اس كا ثواب كسى رشتہ دار يا دوست كو بغير جمع ہوئے اور بغير اجرت ليے ايصال ثواب كرے تو اس ميں علماء كرام كے دو قول ہيں:
ايك قول تو اس كے جواز كا ہے كہ قرآن خوانى كا ثواب ميت كو پہنچتا ہے، اور دوسرا قول يہ ہے كہ اس كى مشروعيت كى كوئى دليل نہ ملنے كى بنا پر ايصال ثواب كے ليے قرآن خوانى كرنا جائز نہيں، يہى قول راجح بھى ہے.
سوم:
اور خاص كر ميت كے گھر والوں كا قرآن خوانى كرانا اور تيسرے روز كھانا پكا كر لوگوں كو كھلانا، اور اسى طرح چاليسواں منانا بھى بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے "
تو يہ مذكورہ كام دين ميں نيا نكالا گيا ہے جو كہ مردود ہے اور ايسا كرنے والا شخص گنہگار ہوگا اسے كوئى اجروثواب حاصل نہيں ہوگا، اور يہ دعوى كرنا كہ چاليس روز كے بعد روح اجروثواب حاصل كرنے گھر آتى ہے يہ جھوٹ اور كذب ہے اس كى كوئى دليل اور اصل نہيں ملتى، جس شخص نے بھى آپ كو كہا ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے يہ كام نہيں كيا "
اس نے آپ سے سچ كہا ہے، اور حق بھى يہى ہے كہ كہ مسلمان شخص كے شايان شان اور لائق ہے كہ اس كا كام حق كى تلاش ہونى چاہيے تا كہ اس پر عمل كيا جا سكے، اور باطل كى پہچان كرنى چاہيے تا كہ اس سے اجتناب كيا جائے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو صراط مستقيم پر ثابت قدم ركھے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.