الحمد للہ.
جى ہاں زكاۃ جو اركان اسلام ميں سے ايك ركن ہے يہ فطرانہ جو كہ رمضان كى زكاۃ كے علاوہ ہے.
پہلى يعنى يعنى اركان اسلام والى زكاۃ ہے اور يہ كچھ اقسام كے اموال ميں فرض ہوتى ہے مثلا:
1 ـ چوپائے يعنى اونٹ گائے اور بكري.
2 ـ تجارتى سامان.
3 ـ زمين سے اگنے والى اشياء، اور يہ دو چيزوں پر مشتمل ہے:
اول:
كھيتى اور پھل، علماء كرام كا اجماع ہے كہ يہ زكاۃ چار اقسام ميں فرض ہوگى: گندم جو كھجور اور منقہ.
اس كے علاوہ باقى اشياء ميں علماء كا اختلاف ہے.
دوم:
خزانہ، يہ كفار كا وہ مال ہے جو زمين ميں مدفون ہو اور مسلمان شخص كو مل جائے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے مجموع الفتاوى ميں ابن منذر رحمہ اللہ سے نقل كيا ہے كہ:
" اہل علم كا اجماع ہے كہ نو اشياء پر زكاۃ واجب ہوتى ہے: اونٹ، گائے، بكري، سونا، چاندى، گندم، جو، كھجور اور منقہ.
جب ان ميں ہر كوئى قسم اس نصاب كو پہنچ جائے جس ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے " اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 25 / 10 ).
ان اموال كے علاوہ ميں علماء كا اختلاف ہے:
ان اموال ميں معين شروط كے ساتھ زكاۃ واجب ہو گى، اور شريعت مطہرہ نے جو مقدار مقرر كى ہے وہ نكالنا اور ادا كرنا واجب ہے.
اس سلسلہ ميں آپ تفصيل معلوم كرنے كے ليے قسم زكاۃ كے مسائل كا مطالعہ كريں.
اور يہ زكاۃ ( يعنى مال كى زكاۃ ) دين اسلام كا ايك ركن ہے اس كا منكر شخص دين اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اور زكاۃ ادا نہ كرنے والا شخص قطعى طور پر فاسق ہے، مسلمان حكمران كو چاہيے كہ وہ زبردستى اور جبر كے ساتھ زكاۃ وصول كرے، اور اگر وہ زكاۃ نہ دينے پر مصر رہے اور اپنے قبيلہ كى پناہ حاصل كر كے زكاۃ ادا نہ كرے تو اس سے لڑائى كى جائيگى حتى كہ وہ زكاۃ ادا كر دے.
بخارى اور مسلم ميں عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" يقينا اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے:
اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور نماز پابندى سے ادا كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
اور بخارى و مسلم كى ايك اور روايت ميں ہے كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مجھے حكم ديا گيا ہے كہ ميں لوگوں سے اس وقت تك لڑائى كروں حتى كہ وہ يہ گواہى ديں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد اللہ كے رسول ہيں، اور نماز پابندى سے ادا كرنے لگيں، اور زكاۃ ادا كريں، چنانچہ جب وہ يہ كام كرنے لگيں ت وانہوں نے مجھ سے اپنا خون اور اپنا مال محفوظ كر ليا، مگر اسلام كے حق كے ساتھ اور ان كا حساب اللہ كے سپرد "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 25 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 22 ).
صحابہ كرام كا اجماع ہے كہ زكاۃ ادا نہ كرنے والوں كے ساتھ جنگ كى جائيگى بخارى اور مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ تھے اور عرب ميں سے جس نے كفر كرنا تھا كفر كيا، چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: تم لوگون سے كيسے جنگ كر سكتے ہو حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مجھے حكم ديا گيا ہے كہ ميں لوگوں سے جنگ كروں حتى كہ وہ لا الہ الا اللہ پڑھ ليں، چنانچہ جس نے بھى لا الہ الا اللہ پڑھ ليا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنا نفس محفوظ كر ليا مگر اسلام كے حق كے ساتھ، اور ا سكا حساب اللہ پر.
تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اللہ كى قسم ميں تو اس نے بھى جنگ كروں گا جس نے نماز اور زكاۃ ميں فرق كيا كيونكہ زكاۃ مال كا حق ہے، اللہ كى قسم اگر انہوں نے مجھ سے ايك بكرى كا چھوٹا سا بچہ بھى روك ليا جو وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديا كرتے تھے تو ميں اس كے روكنے پر ان سے ضرور جنگ كرونگا.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: اللہ كى قسم اللہ تعالى نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كا سينہ كھول ديا تھا تو ميں نے جان ليا كہ وہ حق پر ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1400 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 20 ).
اور جو زكاۃ رمضان المبارك كے آخر ميں فرض ہوتى ہے وہ فطرانہ ہے، سب علماء كا اس كے واجب ہونے پر اجماع ہے، مگر جو شاذ ہے.
ديكھيں: طرح التثريب ( 4 / 46 ).
اور فطرانہ مالى زكاۃ كے درجہ اور مقام سے كم ہے، كيونكہ فطرانہ اركان اسلام ميں شامل نہيں، اور اس كا منكر شخص كافر نہيں ہوتا.
فطرانہ كا ذكر بہت سارى احاديث ميں ملتا ہے جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ہے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر مسلمان مرد و عورت آزاد اور غلام بچے اور بوڑھے پر ايك صاع كھجور يا ايك صاع جو فطرانہ مقرر كيا، اور حكم ديا كہ لوگوں كے نماز عيد كے ليے جانے سے قبل ادا كيا جائے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1503 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 984 ).
اور سنن ابو داود ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ روزے دار كے ليے لغو اور غلط كام سے پاكيزگى اور مسكين كے كھانے كے ليے فطرانہ مقرر كيا، چنانچہ جس نے بھى نماز عيد سے قبل ادا كيا تو اس كا فطرانہ مقبول ہے، اور جس نے نماز عيد كے بعد ادا كيا تو يہ عام صدقات ميں سے ايك صدقہ ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 12459 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .