الحمد للہ.
سودى بنكوں ميں رقم ركھنى بنك كے ساتھ سودى لين دين ميں تعاون ہے، يہ تو اس وقت ہے جب رقم كرنٹ اكاؤنٹ يعنى بغير كسى فائدہ كے ركھى جائے.
ليكن جب فائدہ كے ساتھ ركھى جائے تو يہ سود ہے جسے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حرام قرار ديا ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود خور اور سود كھلانے والے دونوں پر لعنت فرمائى ہے. سود خور سود لينے والا اور سود كھلانے والے سود دينے والا ہے.
اور جس شخص كے پاس مال ودولت ہو اور وہ اس كى حفاظت كرنا اور اسے تجارت ميں لگانا چاہے تو اسے مباح اور حلال طريقہ اور راہ تلاش كرنا چاہيے، لہذا وہ اپنا مال كسى امين شخص كو دے جو اس كے مال سے تجارت كرے اور اس كا نفع دونوں ميں حسب اتفاق تقسيم ہو گا.
اور اگر اسے مال كى حفاظت كا بنك ميں ركھنے كے علاوہ كوئى اور وسيلہ نہيں ملتا تو ضرورت اور حاجت كے وقت بغير كسى فائدہ كے بنك ميں ركھنے ميں كوئى حرج نہيں.
اور اسے چاہيے كہ وہ ايسے بنك كو اختيار كرے جو شر ميں بہت كم ہو اور شرعى معاملات كے زيادہ قريب ہو.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
بنكوں ميں ماہانہ يا سالانہ فائدہ كے ساتھ رقم ركھنا سود ہے جس كى حرمت پر علماء كرام كا اجماع ہے، ليكن بغير كسى فائدہ ( سود ) كے بنكوں ميں رقم ركھنے كے متعلق بھى بہتر يہى ہے كہ جب بنك سودى لين دين كرتے ہوں تو بنكوں ميں بغير ضرورت كےرقم نہ ركھى جائے، كيونكہ بنك ميں رقم ركھنا اگرچہ وہ بغير فائدہ ( سود ) كے ہى كيوں نہ ہو اس ميں سودى لين دين كرنے ميں تعاون ہوتا ہے، لہذا صاحب مال كے ليے خدشہ ہے كہ وہ گناہ اور برائى و زيادتى كے كاموں كے معاونين ميں نہ شامل ہو جائےاگرچہ اس كا ارادہ ايسا نہيں.
لہذا اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء سے اجتناب كرنا اوربچنا ضرورى اور واجب ہے، اور مال ودولت كى حفاظت كے ليے سليم اور صحيح راہ تلاش كرنا چاہيے اور اس كے خرچ كرنے كےليے بھى صحيح راہ تلاش كى جائے.
اللہ تعالى سب مسلمانوں كو ايسے كام كرنے كى توفيق عطا فرمائے جس ميں انكى سعادت و خوشبختى اور ان كى عزت و نجات ہو، اور اللہ تعالى ان كے ليے جلد از جلد اسلامى بنك قائم كرنے ميں آسانى پيدا فرمائے، جو سودى لين دين سے پاك ہوں، بلاشبہ اللہ تعالى اس كا كارساز ہے اوراس پر قادر ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.
ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 4 / 30 - 31 ).
آپ مزيد تفصيل اور اہميت كے لحاظ سے سوال نمبر ( 22392 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .