اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ايام بيض اور شعبان كےمہينہ ميں روزے ركھنے كي ترغيب

سوال

الحمدللہ مجھے ہرمہينہ ايام بيض ( چاند كي تيرہ چودہ پندرہ تاريخ ) كے روزے ركھنے كي عادت ہے، ليكن اس ماہ ميں نے روزے نہيں ركھے اورجب ميں نے روزے ركھنے چاہے تو مجھے يہ كہا گيا كہ يہ جائزنہيں بلكہ يہ بدعت ہے ، ( ميں نے ماہ كےپہلے سوموار كا روزہ ركھا اور پھر انيس شعبان بروز بدھ كا بھي روزہ ركھا ہے اور اللہ كےحكم سے كل جمعرات كا بھي روزہ ركھنا ہے تو اس طرح ميرے تين روزے ہوجائيں گے ) لھذا اس كا حكم كيا ہے ؟ اور شعبان كےمہينہ ميں كثرت سے روزے ركھنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ سبحانہ وتعالي نے بغير علم كے كوئي بات كہني حرام قرار دي ہے اور اسے شرك اور كبيرہ گناہوں كےساتھ ملا كر ذكر كيا ہے .

فرمان باري تعالي ہے:

كہہ ديجيے كہ ميرے رب نے صرف حرام كيا ہے ان تمام فحش باتوں كو جو علانيہ ہيں اور جو پوشيدہ ہيں اور ہرگناہ كي بات كو اور ناحق كسي پر ظلم كرنے كو اور اس بات كو كہ تم اللہ تعالي كےساتھ كسي كو شريك ٹھراؤ جس كي اللہ تعالي نے كوئي سند نہيں اتاري اور اس بات كو كہ تم اللہ تعالي كے ذمہ ايسي بات لگادو جس كو تم نہيں جانتے الاعراف ( 33 )

اور سوال ميں جو يہ ذكر ہوا ہے كہ بعض لوگوں نےمذكورہ صورت ميں شعبان كےروزے ركھنے كوبدعت قرار ديا ہے يہ بھي اللہ تعالي پر بغير علم كے بات كہي گئي ہے .

دوم :

ہر ماہ ميں تين روزے ركھنا مستحب ہيں، اور افضل يہ ہے كہ يہ روزے ايام بيض جو كہ تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كےبنتےہيں ركھےجائيں .

ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ: ميرے دلي دوست نے مجھے تين چيزوں كي وصيت فرمائي كہ موت تك ميں انہيں ترك نہ كروں، ہر ماہ كےتين روزے اور چاشت كي نماز اور سونے سے قبل وتر ادا كرنے.

صحيح بخاري حديث نمبر ( 1124 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 721 )

اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالي عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ نے مجھے فرمايا:

" تيرے ليے ہر ماہ كےتين روزے ركھنا كافي ہے، كيونكہ تجھے ہر نيكي كا دس گنا اجرملےگا تو اس طرح يہ سارے سال كےروزے ہونگے"

صحيح بخاري حديث نمبر ( 1874 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1159 )

اور ابوذر رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:

" اگر تم مہينہ ميں كوئي روزہ ركھنا چاہتےہو تو تيرہ چودہ پندرہ كا روزہ ركھو"

سنن ترمذي حديث نمبر ( 761 ) سنن نسائي حديث نمبر ( 2424 ) امام ترمذي نے اس حديث كو حسن قرار ديا ہے اور علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے ارواء الغليل ( 947 ) ميں اس كي موفقت كي ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي سے مندرجہ سوال كيا گيا:

حديث ميں ہے كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے ابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ كو ہر ماہ ميں تين روزے ركھنے كي وصيت فرمائي، لھذا يہ روزے كب ركھےجائيں؟ اور كيا يہ مسلسل ركھنےہونگے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالي كا جواب تھا:

يہ تين روزے مسلسل ركھنےبھي جائز ہيں اور عليحدہ عليحدہ بھي، اور يہ بھي جائز ہے كہ مہينہ كي ابتدا ميں ركھ ليے جائيں يا درميان ميں اور مہينہ كے آخر ميں بھي ركھے جاسكتے ہيں، اس ميں وسعت ہے كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اس كي تعيين نہيں فرمائي .

عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا سے پوچھا گيا كہ كيا رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم ہر ماہ تين ايام كےروزے ركھتےتھے؟

توعائشہ رضي اللہ تعالي عنھا كہنےلگيں جي ہاں، ان سے كہا گيا كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم مہينہ كےكس حصہ ميں روزے ركھتےتھے؟ وہ كہنےلگيں انہيں اس كي پرواہ نہيں تھي كہ مہينہ كےكس حصہ ميں روزے ركھيں. صحيح مسلم حديث نمبر ( 1160 )

ليكن تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كےروزے ركھنا افضل ہيں كيونكہ يہ ايام بيض ہيں ( يعني ان ايام ميں چاندمكمل ہوتاہے ) .

ديكھيں: مجموع فتاوي الشيخ ابن عثيمين ( 20 / سوال نمبر 376 )

جس نےبھي آپ كواس مہينہ ( شعبان ) ميں روزے ركھنےسے منع كيا ہے ہو سكتا ہے ہوسكتا ہے اس نےاس ليے كہا ہو كہ اسے يہ علم ہوا ہو كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے نصف شعبان ہونے پر روزے ركھنے سے منع فرمايا ہے .

اس ممانعت كےمتعلق سوال نمبر ( 49884 ) كےجواب ميں تفصيل سے بيان ہوچكا ہے كہ يہ ممانعت اس شخص كےمتعلق ہے جو نصف شعبان كےبعد روزے ركھنےكي ابتدا كرتا ہے اور روزہ ركھنا اس كي عادت نہيں .

ليكن جو شخص شعبان كي ابتدا ميں روزے ركھنے شروع كرے اور پھر نصف شعبان كےبعد بھي روزے ركھتا رہے يا پھر روزہ ركھنے كي عادت ہو تو نصف شعبان كےبعد اس كےروزہ ركھنے ميں كوئي ممانعت نہيں، مثلا اگر كسي شخص كي ہر ماہ تين روزے ركھنےكي عادت ہے يا پھر سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھنے كي عادت ہو .

تواس بنا پر شعبان ميں آپ كاتين روزے ركھنے ميں كوئي حرج نہيں، حتي كہ اگر كچھ روزے شعبان كےنصف كےبعد بھي ہوں توصحيح ہے.

چہارم :

شعبان كےمہينہ ميں كثرت سے روزے ركھنےميں كوئي حرج نہيں بلكہ يہ سنت ہے، نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم اس ماہ ميں كثرت سے روزے ركھا كرتے تھے.

عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم روزے ركھتے تو ہم كہنا شروع كرديتےكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم اب روزے نہيں چھوڑيں گے، اور روزے نہ ركھتے حتي كہ ہم يہ كہنےلگتيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم روزے نہيں ركھيں گے، ميں نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم كو رمضان المبارك كےعلاوہ كسي اور ماہ كےمكمل روزے ركھتے ہوئے نہيں ديكھا، اور ميں نےشعبان كےعلاوہ كسي اور ماہ ميں انہيں كثرت سے روزے ركھتےہوئے نہيں ديكھا.

صحيح بخاري حديث نمبر ( 1868 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1156 )

ابو سلمہ بيان كرتےہيں كہ عائشہ رضي اللہ تعالي نے انہيں بيان كيا كہ: نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم شعبان سے زيادہ كسي اور ماہ ميں روزے نہيں ركھتےتھے نبي كريم صلي اللہ پورے شعبان كےہي روزے ركھتےاور كہا كرتےتھے جتني تم طاقت ركھتےہو اتنا كام كرو، اس ليے كہ اللہ تعالي اس وقت تك اجرو ثواب ختم نہيں كرتا جب تك تم اكتا نہ جاؤ، اور نبي صلي اللہ عليہ وسلم كا سب سے پسند وہ نماز تھي جس پر ہميشگي كي جائے اگرچہ وہ كم ہي ہو، اور جب نبي صلي اللہ عليہ وسلم نماز پڑھتےتواس پر ہميشگي كرتے تھے.

صحيح بخاري حديث نمبر ( 1869 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 782 )

آپ سوال نمبر ( 49884 ) كےجواب كا بھي مطالعہ كريں جس كي طرف ابھي كچھ دير قبل اشارہ بھي كيا گيا تھا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب