جمعہ 1 ربیع الثانی 1446 - 4 اکتوبر 2024
اردو

کیابچے کودودھ پلانے کے لیے روزہ نہ رکھنا افضل ہے یا کہ دودھ نہ پلائے اور روزے رکھے ؟

سوال

میرا دس ماہ کا بچہ ہے اوراب رمضان بھی آگيا ہے میں روزے بھی رکھنا چاہتی ہوں ، لیکن کچھ دن قبل میں نے پیر اورجمعرات کا روزہ رکھا تومجھے بہت کمزوری ہوگئي اور میں نڈھال ہوگئي تھی ، توکیا میرے لیے جائز ہے کہ بچے کودودھ نہ پلاؤں بلکہ روزے رکھوں یا یہ افضل ہے کہ میں دودھ پلانے کی وجہ سے روزے نہ رکھوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

سوال نمبر ( 50005 ) کے جواب میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کوجب اپنے آپ یا بچے کونقصان ہونے کا خدشہ ہو تو اس کےلیے روزہ نہ رکھنا افضل ہے ، اورایسی عورت کےلیے روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔

بلکہ بعض اہل علم تویہ کہتے ہیں : کہ جب اسے اپنے بچے کونقصان پہنچنے کا خطرہ ہو تواس کے لیے روزہ رکھنا حرام ہے اوراس پر واجب ہے کہ روزہ نہ رکھے ، اس لیے کہ اس کے لیے کوئي ایسا کام کرنا جائز نہيں جواس کے بچے کو ضرر دے ۔

دوم :

جب بچہ ماں کے دودھ سے مستغنی ہو اوراسے دودھ کی ضرورت نہ ہو تو عورت روزہ رکھے گی اوراس وقت عدم ضرورت ہونے کی بنا پر روزہ افطار نہیں کرسکتی ۔

مرداوی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب بچہ دودھ پینے سے مستغنی ہو توماں کے لیے روزہ ترک کرنا جائز نہيں ہے ۔ اھـ کچھ کمی وبیشی کے ساتھ

دیکھیں : الانصاف للمرداوی ( 7 / 383 ) ۔

سوم :

اگر توسوال میں آپ کے قول " بچے کودودھ پلانا چھوڑ دوں " کا مقصد یہ ہے کہ آپ اس کا دودھ چھڑانا چاہتی ہیں تواس میں بچے کی حالت دیکھی جائے گی ، اگر تودودھ چھڑانے سے نقصان ہوتا ہو تو پھر ایساقدم اٹھاناجائز نہيں ، اوراگر اسے کوئي ضرر اورنقصان نہیں پہنچتا تو دودھ چھڑانے میں کوئي حرج والی بات نہيں لیکن اس میں بھی بچے کے والد سے مشورہ کرنے اورمتفق ہونے کے بعد عمل کرنا ہوگا ۔

اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ جن کاارادہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کا ہو وہ مائيں اپنی اولاد کو پورے دوبرس دودھ پلائيں ، اورجن کےبچے ہیں ان کے ذمہ دستور کے مطابق ان کا روٹی کپڑا ہے ، ہرشخص اتنی ہی تکلیف دیا جاتا ہے جتنی اس کی طاقت ہو ، ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے یا باپ کواس کی اولاد کی وجہ سے کوئي ضرر نہ پہنچایا جائے ۔

وارث پر بھی اس جیسی ہی ذمہ داری ہے ، پھر اگردونوں ( یعنی ماں باپ ) اپنی رضامندی اورباہمی مشورہ سے دودھ چھڑانا چاہیں تودونوں پرکچھ گناہ نہیں ، اوراگر تمہارا ارادہ اپنی اولاد کو دودھ پلوانے کا ہو تو بھی تم پرکوئي گناہ نہيں جب کہ تم ان کودستور کے مطابق جودینا ہو ان کے حوالے کردو ، اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اورجانتے رہو کہ اللہ تعالی تمہارے اعمال کی دیکھ بھال کررہا ہے } البقرۃ ( 233 ) ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :

قولہ تعالی : فان ارادا فصالا یہاں " ارادا "میں ضمیروالدین کے لیے ہے اور" فصالا " کا معنی ہے کہ وہ دودھ چھڑانا ، یعنی بچہ ماں کے دودھ سے کسی دوسری غذا کواستعمال کرنا شروع کردے ۔

دونوں کی رضامندی سے " یعنی دودھ پلانے کی مدت دو برس مکمل ہونے سے قبل ہی " فلاجناح علیھما " یعنی دودھ چھڑانے میں ان پر کوئي حرج نہيں ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مدت رضاعت دو برس مقرر کی ہے لیکن اگر والدین دودھ چھڑانے پر متفق ہوں جس میں بچے پر کوئي ضرر نہ ہو تواس وقت جائز ہے ۔ اھـ کچھ کمی وبیشی کے ساتھ ۔

ابن جریر رحمہ اللہ تعالی نے تفسیر میں سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

جب والد بچے کا دو برس سے قبل ہی دودھ چھڑانا چاہے اورماں اس پرراضي نہ ہو تواسے کوئي حق نہیں کہ وہ اکیلا ہی دودھ چھڑائے ، اوراگر عورت کہے کہ میں دوبرس سے قبل بچے کا دودھ چھڑانے لگی ہوں اوروالد اس کا انکار کرے توماں کو بھی اس کا حق حاصل نہیں کہ وہ باپ کی رضامندی کے بغیر دودھ چھڑا دے دونوں کا رضامندہونا ضروری ہے ۔

اوراگر وہ دونوں ہی دوبرس سے قبل بچے کا دودھ چھڑانے پررضامندہو جائيں توچھڑا سکتے ہیں ، لیکن اگر ان کا آپس میں اختلاف ہو توایسا نہيں کرسکتے ، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

لھذا اگر وہ دونوں رضامندی سے اورباہمی مشورہ سے دودھ چھڑانا چاہیں ۔

دیکھیں تفسیر طبری حدیث نمبر ( 3913 ) ۔

لیکن اگر بچے کودودھ نہ پلانے سے مقصد یہ ہو کہ اسے ماں کے دودھ سے فیڈر کے ساتھ دودھ پلایا جائے تواس میں بھی بچے کوطبعی دودھ کے فوائد سے محروم کرنا ہے اوراس میں بچے کی مصلحت نہيں پائي جاتی کیونکہ اس کا ثبوت بھی مل چکا ہے ، اور اس میں کوئي شک نہيں کہ بچوں کوماں کا دودھ پلانے میں بہت سے فو‏ائد ہیں اوراس میں بہت اہمیت ہے ۔

اس حالت میں والدہ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بچے کودودھ پلانے کےلیے روزہ نہ رکھے ، بلکہ اسے روزہ رکھنا جائز نہيں اورنہ ہی یہ جائز ہے کہ وہ اپنا دودھ چھوڑ کرفیڈر کے ذریعہ مصنوعی دودھ پلائے ۔

آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 20759 ) کے جواب کا مطالعہ کريں

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب