سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بيوى كو " تم ميرى ماں جيسى ہو " كہہ ديا

50305

تاریخ اشاعت : 26-02-2007

مشاہدات : 7206

سوال

ايك بيوى كو اس كے خاوند نے كہہ ديا كہ: تم ميرے ليے ميرى ماں اور بہن جيسى ہو، تو كيا يہ طلاق شمار ہو گى يا كہ اس كا كوئى كفارہ ہے، اور اس كا كفارہ كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يہ الفاظ طلاق شمار نہيں ہوتے، بلكہ يہ ظہار كے وہ الفاظ ہيں جو صريح الفاظ ميں شامل نہيں، بلكہ اس سے ظہار وغيرہ كا احتمال ہوتا ہے.

دوم:

ان الفاظ كا حكم يہ ہے كہ اس ميں متكلم ( يعنى كلام كرنے والے خاوند ) كى نيت اور اس پر دلالت كرنے والے قرائن كو ديكھا جائيگا.

رہى نيت؛ تو ہو سكتا ہے خاوند كى اس كلام كا مقصد يہ ہو كہ وہ اس پر اس كى ماں كى طرح حرام ہے، تو اس طرح يہ ظہار ہو گا.

اور ہو سكتا ہے كہ اس نے اس كا مقصد يہ ہو كہ اس كى عزت و اكرام اور محبت ميں ماں كى طرح ہے تو اس طرح يہ ظہار نہيں ہوگا، اور نہ ہى اس پر كچھ مرتب ہوتا ہے.

رہا قرينہ؛ تو كلام كا سياق و سباق اور حادثہ جس ميں خاوند نے اس سے ظہار كا ارادہ كيا دلالت كرتا ہے تو اس طرح يہ ظہار ہوگا، قرينہ كى مثال يہ ہے كہ: اگر خاوند اور بيوى كا آپس ميں جھگڑا اور توتكار ہو جائے تو خاوند نے اسى دوران بيوى سے يہ كہا كہ: تو مجھ پر ميرى ماہ كى طرح ہے، تو اس كلام كے سياق سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اس نے ظہار كا ارادہ كيا ہے تو اس طرح ظہار ہوگا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا كہ: تو مجھ پر ميرى ماں اور بہن كى طرح ہے تو اس كا حكم كيا ہو گا ؟

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر اس كا مقصود يہ تھا كہ عزت و اكرام كے اعتبار سے تو مجھ پر ميرى ماں اور بہن كى طرح ہے، تو اس پر كچھ نہيں، اور اگر اس كا مقصد ماں اور بہن كو نكاح كے اعتبار سے تشبيہ دينے كا ہو تو يہ ظہار ہے اس ليے اس كے ذمہ وہ كچھ ہو گا جو ظہار كرنے والے كے ذمہ ہوتا ہے، اور اگر وہ اس كو ركھنا چاہے تو ظہار كا كفارہ ديے بغير اس كے قريب نہيں جا سكتا " اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ابن تيميہ ( 34 / 5 ).

اور ايك دوسرى جگہ پر يہ كہتے ہيں:

" اور اگر اس نے يہ چاہا كہ وہ ميرے نزديك ميرى ماں كى طرح ہے، يعنى اس سے ہم بسترى كرنے اور اس سے استمتاع كرنے ميں ماں كى طرح ہے يا وہ كچھ جو ماں كى حرمت ہوتى ہے تو وہ ماں كى طرح ہى ہے وہ اس سے استمتاع حاصل نہيں كر سكتا، تو يہ ظہار ہے اس پر وہى كچھ واجب ہو گا جو ظہار كرنے والے پر ہوتا ہے.

وہ اس كے ليے كفارہ دينے سے قبل حلال نہيں ہوگى، يا تو وہ ايك غلام آزاد كرے، اور اگر غلام نہ پا سكے تو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھے اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ہو تو پھر ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلائے گا. اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 7 / 34 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر اس نے يہ كہا كہ: تو مجھ پر ميرى ماں جيسى ہے، يا ميرى ماں كى طرح ہے، اور اس سے ظہار كى نيت كى تو عام علماء كى نظر ميں يہ ظہار ہو گا، جن ميں ابو حنيفہ، اور صاحبين، اور امام شافعى، اسحاق رحمہم اللہ شامل ہيں.

اور اگر اس سے عزت و توقير اور ا كرام كى نيت كى، يا پھر يہ كہ وہ بڑى ہونے كے اعتبار سے ماں كى طرح، يا صفت كے اعتبار سے ماں كى طرح كى نيت كى تو يہ ظہار نہيں ہوگا، اور اس ميں اس كى نيت كا اعتبار كيا جائيگا " اھـ

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 11 / 60 ).

يعنى اس ميں نيت كى تحديد كے ليے خاوند كى طرف رجوع كيا جائيگا كہ اس نے كيا نيت كى تھى، كسى اور كى طرف رجوع نہيں ہو گا.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" اگر خاوند اپنى بيوى كو يہ كہے: ميں تيرا بھائى ہو، يا تو ميرى بہن ہے، يا تو ميرى ماں ہے، يا ماں كى طرح ہے، يا تو ميرے ليے ميرى ماں جيسى ہے، يا ميرى بہن جيسى ہے، تو اگر خاوند نے اس سے يہ مراد ليا كہ وہ عزت و تكريم اور صلہ رحمى اور احترام ميں ماں يا بہن جيسى ہے، يا اس كى كوئى نيت ہى نہ ہو اور نہ ہى كوئى ايسا قرينہ ہو جو ظہار پر دلالت كرتا ہو تو اس سے ظہار نہيں ہوگا، اور نہ ہى اس پر كچھ لازم آتا ہے.

ليكن اگر اس نے ان كلمات سے ظہار مراد ليا ہو، يا پھر اس پركوئى قرينہ دلالت كرتا ہو، مثلا يہ كلمات غضب كى حالت ميں، يا پھر اسے بطور دھمكى كہے گئے ہوں، اور يہ حرام ہے، اس پر توبہ كرنا لازم ہے، اور بيوى سے تعلقات قائم كرنے سے قبل كفار ادا كرنا لازم ہے، يعنى ايك غلام آزاد كرنا، اگر اس كى استطاعت نہ ہو تو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھنا، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلانا ہو گا. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 274 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

جب خاوند اس كلام سے ظہار كا ارادہ كرے، يا پھر اس پر كوئى قرينہ دلالت كرتا ہو تو يہ ظہار ہوگا، اور اس كے علاوہ باقى حالتوں ميں ظہار نہيں، اور نہ ہى اس كے نتيجہ ميں كچھ لازم آتا ہے.

سوم:

ظہار كرنا حرام ہے، اللہ سبحانہ وتعالى نے اسے منكر اور قول زور سے تعبير كيا ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

جو لوگ تم ميں سے اپنى بيويوں سے ظہار كرتے ہيں وہ در اصل ان كى مائيں نہيں، بلكہ ان كى مائيں تو وہ ہى ہيں جنہوں نے انہيں جنم ديا ہے، اور يقينا يہ لوگ برى بات اور جھوٹ كہتے ہيں المجادلۃ ( 2 ).

اس ليے جو شخص بھى اپنى بيوى سے ظہار كرے اسے كفارہ كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى سے توبہ كرنى چاہيے.

چہارم:

جب خاوند بيوى كو ركھنا چاہے اور اسے طلاق نہ دے تو بيوى سے ظہار كرنے والے خاوند پر كفارہ واجب ہوتا ہے، اور كفارہ ادا كرنے سے قبل اپنى بيوى سے جماع كرنا حلال نہيں، اور كفارہ يہ ہے كہ يا تو ايك غلام آزاد كيا جائے، اور اگر اس كى استطاعت نہ ہو تو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلائے، اس كى دليل درج ذيل آيت ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور جو لوگ اپنى بيويوں سے ظہار كريں اور پھر اپنى كہى ہوئى بات سے رجوع كر ليں تو ان كے ذمہ آپس ميں ايك دوسرے كو ہاتھ لگانے سے قبل ( تعلقات قائم كرنے سے قبل ) ايك غلام آزاد كرنا ہے، اس كے ذريعہ تمہيں نصيحت كى جاتى ہے، اور اللہ تعالى تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے ہاں جو شخص نہ پائے تو اس كے ذمہ دو مہينوں كے مسلسل روزے ركھنا ہيں اس سے قبل كہ وہ آپس ميں ايك دوسرے كو ہاتھ لگائيں ( تعلقات قائم كريں ) اور جو شخص اس كى بھى طاقت نہ ركھتا ہو وہ ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلائے، يہ اس ليے كہ تم اللہ تعالى اور اس كے رسول پر ايمان لا كر اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرو، اور يہ اللہ تعالى كى مقرر كردہ حدود ہيں، اور كفار كے ليے المناك عذاب ہے المجادلۃ ( 3 - 4 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب