جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

كيا روزانہ چھ گولياں دوائى كھانے والا شخص روزہ نہ ركھے ؟

سوال

مجھے ريڑھ كى ہڈى ميں تكليف ہے جس كى بنا پر مجھے روزانہ چھ خوراك دائى لينا پڑتى ہے، كيا ميں روزے نہ ركھوں بلكہ رمضان كے بعد قضاء كر لوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو شفايابى نصيب فرمائے، اور آپ كو تكليف پر صبر و تحمل كرنے كى ہمت دے تاكہ آپ كو اس كا پورا اور مكمل اجروثواب حاصل ہو، اللہ سبحانہ وتعالى نے مريض شخص تخفيف كرتے ہوئے اسے بيمارى كى حالت ميں روزہ نہ ركھنے كى اجازت دى اور بيمارى ختم ہونے كے بعد ان كى قضاء كرنے كى رخصت دى ہے.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

چنانچہ جو كوئى بيمار ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى مكمل كرے البقرۃ ( 184 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اہل علم كا اجماع ہے كہ مريض شخص روزہ چھوڑ سكتا ہے اس كى دليل اللہ تعالى كا فرمان ہے"

چنانچہ جو كوئى بھى مريض ہو يا مسافر وہ دوسرے ايام ميں گنتى مكمل كرے البقرۃ ( 184 ). " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 3 / 88 ).

اس بيمارى كى بنا پر روزہ ترك كرنا مباح ہے جس ميں روزہ ركھنے سے نقصان كا انديشہ ہو يا پھر شفايابى ميں تاخير ہوتى ہو، روزہ ترك كرنے ليے دوائى كھانا كوئى شرعى عذر نہيں، ليكن اگر دن ميں ہى دوائى كھائے بغير كوئى چارہ نہيں تو پھر روزہ ترك كيا جاسكتا ہے.

ليكن اگر سحرى اور افطارى كے وقت دوائى كھانى ممكن ہو اور روزہ ركھنا اس كے مضر نہ ہو تو اس كے ليے روزہ ترك كرنا جائز نہيں، اوراگر دن كے وقت دوائى كھانے كى ضرورت پيش آئے تو روزہ چھوڑنے ميں كوئى حرج نہيں، رمضان كے بعد وہ ترك كردہ روزوں كى قضاء كرےگا.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: روزہ چھوڑنے كے جواز كى شرط يہ ہے كہ: اگر روزہ ركھنے سے مشقت كا احتمال ہو اور يہ مشقت برداشت سے باہر ہو ليكن تھوڑى سى بيمارى جس سے ظاہر كوئى مشقت نہ ہوتى ہو اس كى بنا پر ہمارے نزديك روزہ ترك كرنا جائز نہيں " انتہى.

ديكھيں: المجموع ( 6 / 257 ).

ابن قدامہ مقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" روزہ ترك كرنے كے ليے مباح مرض وہ ہے جو روزہ كى بنا پر مرض شديد ہو يا پھر شفايابى ميں تاخير كا باعث ہو "

امام احمد رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا:

مريض روزہ كب ترك كرے ؟

امام صاحب كا قول تھا:

اگر مريض روزہ نہ ركھ سكے.

كہا گيا: مثلا بخار ؟

امام صاحب كہنے لگے:

بخار سے زياد شديد بيمارى بھى كوئى ہے " انتہى.

ديكھيں المغنى ابن قدامہ ( 3 / 88 ).

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رمضان المبارك ميں اگر كسى مريض كے ليے روزہ ركھنا نقصان دہ ہو يا مشقت ہوتى ہو، يا دن ميں گولياں اور سيرپ وغيرہ استعمال كر كے علاج كى ضرورت پيش آئے تو مريض كے ليے روزہ نہ ركھنا مشروع ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم ميں سے كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے .

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ تعالى يہ بھى پسند كرتا ہے كہ اس كى دى گئى رختصوں پر عمل كيا جائے، اسى طرح كہ جس طرح اس كى معصيت كرنا ناپسن ہے "

اور ايك دوسرى روايت ميں ہے كہ:

" جس طرح اسے يہ پسند ہے كہ اس كے احكام پر عمل كيا جائے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 139 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اگر رمضان المبارك ميں طلوع فجر كے بعد كوئى مريض دوائى كھائے تو اس كا روزہ صحيح نہيں؛ كيونكہ اس نے عمدا روزہ افطار كيا ہے، اور اسے باقى سارا دن بغير كھائے پيئے گزارنا ہوگا.

ليكن اگر بيمارى كى بنا پر اس كے ليے سارا دن كھائے پيئے بغير گزارنا مشكل ہو تو بيمارى كى بنا پر اس كے ليے روزہ نہ ركھنا جائز ہے، اور عمدا افطار كرنے كى بنا پر اسے بعد ميں بطور قضاء روزہ ركھنا ہوگا.

مريض كے ليے روزہ كى حالت ميں دوائى كھانى جائز نہيں، ليكن اگر ضرورت پيش آئے تو استعمال كى جاسكتى ہے، مثلا موت كا ڈر ہو تو پھر ہم اس ميں تخفيف كے ليے گولى دى جا سكتى ہے، كيونكہ وہ اس حال ميں بغير روزے سے ہے، اور بيمارى كى بنا پر روزہ نہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں " انتہى

ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 76 ).

اگر دائمى بيمارى ہو كہ اس بيمارى كى بنا پر وہ قضاء نہ كر سكے تو اس پر روزہ ركھنا واجب نہيں، اور نہ ہى قضاء، بلكہ اس پر ہر روزہ كے بدلے ايك مسكين كو صبح يا شام كو كھانا كھلا دے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا:

ايك شخص دل كا مريض ہے صرف دل كا ايك حصہ كام كرتا ہے اور مستقل طور پر دوائى استعمال كرتا يعنى تقريبا ہرچھ يا آٹھ گھنٹے بعد كيا اس سے روزہ ساقط ہو گا ؟

جى ہاں اس سے روزہ ساقط ہے، اور وہ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا دےگا، اگر چاہے تو كئى ايك مساكين كو ايك چوتھائى صاع چاول اور اس كے ساتھ گوشت بھى دے سكتا ہے، اور اگر چاہے تو رمضان كے آخرى روز رات يا پھر سحرى كا كھنا كھلا دے، يہ سب جائز ہے " انتہى.

ديكھيں: ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 87 ).

مرض كى حالتوں كے متعلق تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 38532 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب