جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

میری بہن اپنے خاوند سے بہت تنگ ہے، تو کیا میں اسے طلاق لینے کا مشورہ دوں؟

509169

تاریخ اشاعت : 22-10-2024

مشاہدات : 793

سوال

میری بہن کا خاوند بہت ہی گندی زبان والا ہے، بہت زیادہ گالی گلوچ کرتا ہے، بد ترین الفاظ میں الزامات لگاتا ہے، مار پیٹ بھی کرتا ہے، ہمیشہ میری بہن کو قتل کی دھمکیاں دیتا ہے، میرے بڑے بھائی کو بھی بلا وجہ تکلیف دے کر ہمیں پریشان کرتا ہے، وہ تو نفسیاتی مریض کی طرح مسائل خود سے پیدا کرتا رہتا ہے، واضح رہے کہ میری بہن ہی اس کے سارے اخراجات چلا رہی ہے، گھر کا کرایہ، کھانا ، لباس سب کچھ میری بہن ہی کرتی ہے، اس کے پانچ بچے ہیں، اور ہمارا بہنوئی کوئی کام نہیں کرتا، نہ ہی کوئی کام کرنا چاہتا ہے حالانکہ اس کی صحت بھی اچھی ہے، تو کیا میں اپنی بہن کو طلاق لینے کا مشورہ دوں، کیونکہ مجھے اپنی بہن اور اس کے بچوں پر بہت تر س آتا ہے کہ کہیں ان کی آئندہ کی زندگی اس شخص کی وجہ سے برباد نہ ہو جائے، یا طلاق کا مشورہ خاوند اور بیوی کو لڑانے کے زمرے میں آئے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر تو صورت حال ایسی ہی ہے جیسی کہ سوال میں ذکر کی گئی ہے تو یہ بلا شبہ نہایت ہی گدلی زندگی ہے؛ کیونکہ مرد کو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جسے اللہ تعالی نے گھر کا سربراہ بنایا ہے کہ وہ خود گھر کے اخراجات کی ذمہ داری لے، اور بچوں کی تربیت کا بندوبست کرے ۔ لیکن وہ خود ہی بے روز گار بیٹھا رہے؛ حالانکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی فرمان ہے کہ: (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، چنانچہ مرد اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے، اس سے ان سب کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ توجہ کرو! تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری اور رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔) صحیح بخاری: (2278)

اگر طلاق یا خلع لینے کی وجوہات موجود ہوں تو عورت ان کا مطالبہ کر سکتی ہے، چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ! میں ثابت بن قیس میں دینی یا اخلاقی کوئی کمی نہیں پاتی، لیکن مجھے ذاتی طور پر اسلام میں رہتے ہوئے کفر کا خدشہ ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا تم اسے اس کا باغ واپس کر دو گی؟ ) تو اس خاتون نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قیس باغ واپس قبول کرو ، اور ایک طلاق دے دو۔) صحیح بخاری: (4867)

اس صحابیہ کا یہ کہنا کہ: ” مجھے ذاتی طور پر اسلام میں رہتے ہوئے کفر کا خدشہ ہے ۔” کا مطلب یہ ہے کہ: مجھے برا لگتا ہے کہ میں ایسا کوئی کام کر بیٹھوں جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو کہ میں اپنے خاوند سے بغض رکھوں، یا اس کی نافرمانی کروں یا اپنے خاوند کے حقوق وغیرہ صحیح طرح سے ادا نہ کروں۔
دیکھیں: “فتح الباری(9/400)

الشیخ ابن جبرین رحمہ اللہ خلع طلب کرنے کا سبب بننے والے اسباب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
“اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے اخلاق سے تنگ ہو کہ فوری غصہ ہو جائے، مزاج میں تلخی اور نہایت تیزی ہے، غصہ بہت جلد آتا ہے، معمولی باتوں پر بھی تنقید کرتا ہے، اور چھوٹی سی بات پر ہی ڈانٹ ڈپٹ شروع ہو جاتی ہے، تو ایسی خاتون خلع طلب کر سکتی ہے۔

دوم: اگر عورت کو اپنے خاوند میں جسمانی عیب نظر آئے ، یا اس کی شکل اچھی نہ ہو، یا اس کے حواس میں کوئی کمی ہو تو عورت خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

سوم: اگر خاوند نماز نہ پڑھتا ہو، یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں سستی کرتا ہو، یا رمضان میں بلا عذر روزے نہ رکھے، یا حرام کاموں میں ملوث ہو،مثلاً: زنا، شراب نوشی، گانے سننا، اور غیر اخلاقی چیزیں دیکھنا وغیرہ تو بیوی خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

چہارم: بیوی کے نان و نفقہ، لباس اور بنیادی ضرورت کی چیزوں سے محروم رکھے حالانکہ خاوند پوری کر سکتا ہو، تو بیوی خلع طلب کر سکتی ہے۔

پنجم: بیوی کو مناسب وقت نہ دے، یا تو جسمانی کمزوری کی وجہ سے ، یا پھر خاوند کو اپنی اس بیوی میں دلچسپی نہ رہی ہو، یا اسے کسی اور میں دلچسپی ہو، یا رات گزارتے ہوئے عدل نہیں کرتا، تو ان تمام صورتوں میں خلع طلب کر سکتی ہے۔ واللہ اعلم” ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (1859) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

چونکہ آپ کی بہن کا یہ مسئلہ ہے، اور اسی کو اپنے خاوند کے بارے میں کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ علم ہے، تو وہی یہ فیصلہ صحیح انداز سے کر سکتی ہے کہ بچوں کی خاطر اسی گدلی زندگی میں گزارا کرنا ہے ؛ کیونکہ باپ کا موجود ہونا، اور اولاد ماں اور باپ دونوں کے اکٹھے رہنے سے نفسیاتی، سماجی اور تربیتی طور پر اچھا اثر لیتی ہے، بہت سے حالات میں علیحدگی کی بجائے اکٹھے رہنا بہتر ہوتا ہے۔

اور آپ کی بہن جیسی خواتین کو نصیحت اور رہنمائی کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم انہیں اولاد ہونے سے پہلے نصیحت کر رہے ہیں یا بعد میں؛ کیونکہ یہاں قربانی بچوں کی سلامتی کی خاطر ہو گی، چنانچہ بچوں کے سماجی، نفسیاتی اور گھریلو امان کے لیے صبر اور ایثار لازم ہے۔

ساتھ ہی اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑا کر دعائیں کریں کہ اللہ تعالی ان کے خاوند کو سدھار دے، سمجھدار اور خیر خواہ لوگوں کو اس شخص کے ساتھ وقت گزارنے کا کہیں؛ کیونکہ دل کی دنیا بدلتے دیر نہیں لگتی، ویسے بھی دل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں؛ آپ کو کتنے ہی لوگ ایسے نظر آئیں گے جو منحرف ہونے کے بعد راہ راست پر آ گئے۔

اور اگر سسرالی خاندان میں سے کوئی اچھا اور بھلا شخص ہو جس کی بات مانی جاتی ہو، اور آپ کا بہنوئی اس کا احترام بھی کرتا ہو تو اس معاملے میں اس شخص کی مدد بھی لی جا سکتی ہے کہ اگر ایسے شخص کے شامل ہونے سے بہتری کی امید ہو تو اسے شامل کیا جائے۔

تو ہمیں یہ سمجھ آتی ہے کہ جب تک آپ کی بہن صبر کیے ہوئے ہے، جو کہ ان کے سمجھدار ہونے کی علامت ہے، اور بالغ نظری کی دلیل ہے، اس لیے مناسب یہ ہے کہ کوئی بھی جدائی کے حوالے سے اس سے بات نہ کرے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ جدائی کے بعد ہونے والا نقصان خاوند میں پائی جانے والی خرابیوں سے بھی زیادہ ہو۔

اور اگر آپ کی بہن کو اپنی جان، یا دینداری یا بچوں کے بارے میں خدشات ہوں تو پھر علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے، علیحدگی کا مطالبہ کرنا اس کے لیے منع نہیں ہے، لیکن جدائی کا مشورہ بہن کو نہیں دیں گے، یا خاوند کو نہیں کہیں گے؛ کیونکہ اگر بیوی جدا ہونے کا ارادہ رکھتی ہے تو خاوند ہی اسے طلاق دے سکتا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب