سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز بنانا جائز ہے؟ کیا اس پر ثواب ملے گا؟

512399

تاریخ اشاعت : 20-10-2024

مشاہدات : 879

سوال

اگر میں کسی شخص کی آواز لے کر مصنوعی ذہانت کو دوں اور وہ اسی آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کرے، تو کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟ اور کیا اس پر اجر بھی ملے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کسی بھی شخص کی آواز کہیں اور استعمال کرنا، یا اس جیسی آواز بنانا، یا کسی کی آواز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا جائز نہیں ہے، الا کہ کوئی شخص اس کی اجازت دے۔ تا کہ مجرمانہ سرگرمیوں کا دروازہ بند رہے، اور لوگوں کے حقوق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جا سکے، اور لوگوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔

کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی انسان کی آواز لے کر اسی کی آواز میں کوئی غلط بات تیار کر دے، یا کسی چیز کا اقرار اس کی آواز میں کروائے، یا کوئی وصیت وغیرہ تیار کروا دے، اس طرح لوگوں کی عزت اور دولت دونوں ہی ہتھیانے لگیں گے، اور لوگوں کی کوئی چیز بھی محفوظ نہیں رہ سکے گی؛ لہذا یہ کام صاحبِ آواز کی اجازت سے کسی ایسے معاملے میں جائز ہو سکتا ہے جس کا نقصان کسی کو نہ ہو۔

مندرجہ بالا گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کسی کی آواز سے گفتگو تیار کرنا درج ذیل شرائط کی موجودگی میں جائز ہے:

  • صاحبِ آواز کی اجازت سے ہو۔
  • گفتگو کسی جائز کام سے تعلق رکھتی ہو۔
  • کسی کو بھی اس کام سے نقصان نہ ہو۔

لہذا اگر کوئی شخص اپنی آواز تلاوت قرآن کریم تیار کرنے کے لیے دینے پر تیار ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دوم:

جس شخص کی آواز قرآن کریم کی تلاوت کے لیے استعمال کی گئی ہے ، تو چونکہ اس شخص نے حقیقت میں قرآن کریم کی تلاوت خود نہیں کی اس لیے بنائی گئی آواز میں اسے ثواب نہیں ملے گا، لیکن اگر اس تلاوت سے کسی کو فائدہ ہوا تو پھر لوگوں کو فائدہ ہونے کی وجہ سے اسے ثواب ملے گا کہ اس آواز سے اس نے لوگوں کو خیر کے کام کی دعوت دی؛ کیونکہ آواز یہاں خیر کے کام میں استعمال ہونے والے آلے کی طرح ہے، اور اس آلے کو مالک نے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے اس لیے یہ شخص اجر میں حصے دار ہے۔

اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی آواز کسی حرام کام مثلاً؛ گانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی اور پھر لوگوں میں اسے نشر بھی کیا گیا تو یہ شخص بھی گناہ میں شریک ہو گا۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْأِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور جارحیت والے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو، اور تقوی الہی اپناؤ یقیناً اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔ [المائدۃ: 2]

اسی طرح صحیح مسلم: (2674) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور کسی کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہو گا اور کسی کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔)

علامہ نووی رحمہ اللہ “شرح مسلم” (16/226) میں کہتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (جس شخص نے کوئی اچھا کام کرنے کی ریت ڈالی ۔۔۔ اور جس شخص نے برا کام کرنے کی ریت ڈالی۔۔۔) الحدیث ، دوسری حدیث میں الفاظ ہیں: (جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی۔۔۔ اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی) یہ دونوں احادیث اچھے کاموں کی ترغیب دینے کے لیے مہمیز دلاتی ہیں اور برے کاموں کی ریت ڈالنے کو حرام قرار دیتی ہیں۔ یہ احادیث اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ: اگر کسی نے اچھے کام کرنے کی ریت ڈالی تو اسے بھی قیامت تک کے لیے اس ریت پر چلنے والوں کے برابر اجر ملتا رہے گا، اور اگر کسی نے بری ریت ڈالی تو اس پر بھی قیامت تک اس بری ریت پر عمل کرنے والوں کا گناہ ملتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے اچھا کام کرنے کی دعوت دی تو اس کے پیروکاروں کے اجر کے برابر اسے بھی اجر ملے گا، اور اگر کسی نے برا کام کرنے کی دعوت دی تو اس پر عمل پیرا ہونے والوں کے گناہوں کے برابر اس پر بھی گناہ ہو گا۔ چاہے دعوت دی گئی اچھائی یا برائی اسی داعی نے خود ایجاد کی ہو یا پہلے سے ایجاد شدہ ہو، نیز اس میں علم سکھانا، عبادت کا طریقہ بتلانا، یا ادب سکھانا جیسی دیگر تمام مثبت سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا) کا مطلب یہ ہے کہ: جس نے اس کام کی ریت ڈالی اب اس پر عمل اس کی زندگی میں ہوا یا مرنے کے بعد ۔ واللہ اعلم” ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب