اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کسی کو خوش آمدید کہتے ہوئے مرحبا کہنا اور پھر اس کا جواب { تُرحبُ بِكَ الجنة} کہتے ہوئے دینے کا حکم

514686

تاریخ اشاعت : 11-12-2024

مشاہدات : 561

سوال

میں کسی کو خوش آمدید کہتے ہوئے مرحبا کہوں اور پھر وہ مجھے اس کے جواب میں کہے: {تُرحبُ بِكَ الجنة} “تمہیں جنت مرحبا کہتی ہے” یا “تمہیں جنت مرحبا کہے۔” کیا یہ بات کہنا صحیح ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر کسی شخص کو خوش آمدید کے طور پر مرحبا کہا گیا تو یہ شخص اس سے بہتر انداز میں اس کا جواب دے گا، مثلاً: “مرحبا “کے ساتھ “اھلا” کا اضافہ کر دے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا
ترجمہ: جب تمہیں استقبالی کلمہ کہا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو، یا وہی الفاظ لوٹا دو؛ یقیناً اللہ تعالی ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔[النساء: 86]

آپ نے سوال میں پوچھا کہ مرحبا کے جواب میں یہ کہنا کہ: “تمہیں جنت مرحبا کہتی ہے۔” اگر یہ بطور خبر کہا تو یہ جھوٹ ہے، ایسا کہنا جائز نہیں ہے۔

اور اگر بطور دعا کہا کہ: “تمہیں جنت مرحبا کہے۔” اور سوال سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہی دوسرا مفہوم مراد ہے کہ استقبال کرنے والے کا جنت استقبال کرے، تو ہمیں ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ جنت بذات خود جنت میں جانے والوں کا استقبال کرے گی، ہاں یہ تو ہے کہ فرشتے اہل جنت کا استقبال کریں گے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ترجمہ: اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو جنت کے دربان [استقبال کرتے ہوئے ] انہیں کہیں گے : تم پر سلامتی ہو، خوش ہو جاؤ اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو جاؤ ۔[الزمر: 73]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ (23) سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
ترجمہ: ہمیشہ کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولادوں میں سے بھی جو نیک ہوئے اور فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے۔ [24] سلام ہو تم پر اس کے بدلے کہ تم نے صبر کیا۔ سو آخرت کا گھر بہت ہی اچھا ہے۔ [الرعد: 23 – 24]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ
ترجمہ: انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی اور انہیں (آگے سے) لینے کے لیے فرشتے آئیں گے۔ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔ [الانبیاء: 103]

غیبی امور توقیفی ہوتے ہیں، لہذا بغیر دلیل کے ان امور میں بات چیت نہیں کی جاتی۔

تو چونکہ ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہو سکی کہ جنت خود جنتیوں کا استقبال کرے گی، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ایسی بات نہ کی جائے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ یہ دعا کے الفاظ میں جارحیت شمار ہو۔ [اگر اسے جملے کو دعائیہ قرار دیا جائے۔ مترجم]

جیسے کہ سنن ابو داود: (96)، ابن ماجہ: (3864)، اور مسند احمد: (16847)میں سیدنا عبد اللہ بن مغفل کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو دعا کرتے ہوئے سنا : “یا اللہ! میں تجھ سے سفید محل کا سوال کرتا ہوں جو میرے جنت میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب ہو” تو انہوں نے کہا: “بیٹا! اللہ تعالی سے جنت مانگو اور جہنم سے پناہ مانگو؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو میں نے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: یقیناً میری امت میں ایسی قوم ہو گی جو طہارت اور دعا میں زیادتی کرے گی۔” ا س حدیث کو البانیؒ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اس لیے یہ الفاظ ترک کر دئیے جائیں ، اور استقبال کے لیے سلام کیا جائے اور اسی کا جواب دیا جائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب