الحمد للہ.
1 - خلع اصل میں بیوی کے مطالبہ پر ہی ہوتا ہے اور بیوی کے مطالبہ کے بعد خاوند کا علیحدگی پر رضامند ہونے کو خلع کہتے ہے ۔
2 - خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے والی ہر عورت پر عدت واجب ہے یا پھر اس کے خاوند نے اسے طلاق یا فسخ نکاح اوریا وفات کی وجہ سے چھوڑ ا ہو لیکن اگر دخول سے قبل طلاق ہوئي ہو تو پھر عورت پر کوئي عدت نہیں اس لیے کہ فرمان باری تعالی ہے :
اے مومنوں ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان پر تہمارا عدت کا کوئي حق نہیں جسے تم شمار کرو الاحزاب ( 49 ) ۔
3 - اورخلع کی عدت کے بارہ میں صحیح یہی ہے کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی اس کی دلیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے :
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2229 ) اورامام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ربیع بنت عفراء سے حدیث بیان کی ہے سنن نسائي حدیث نمبر ( 3497 ) دونوں حدیثوں کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے جس کا ذکر آگے آۓ گا ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :
خلع حاصل کرنے والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا جوحکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اس میں دو حکموں کی دلیل ہے :
پہلا:
یہ کہ اس عورت پر تین حيض عدت نہیں بلکہ اسے ایک حیض بطور عدت گزارنا ہی کافی ہے ، جس طرح کہ حدیث میں واضح اورصریح موجود ہے ۔
امیر المومنین عثمان بن عفان اورعبداللہ بن عمر بن خطاب اورربیع بنت معوذ اوران کے چچا جوکبار صحابہ کرام میں سے ہیں ان سب کا مسلک بھی یہی ہے ، اوران کا کوئي بھی مخالف نہیں ۔
لیث بن سعد ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ کے مولی نافع سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضي اللہ تعالی عنہ سے سنا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ کوبتا رہی تھیں کہ :
انہوں نے عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے دور میں اپنے خاوند سے خلع حاصل کیا تواس کے چچا عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے بنت معوذ نے آج اپنے خاوند سے خلع لے لیا ہے تو کیا وہ منتقل ہوجاۓ ؟ توعثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا جی ہاں وہ منتقل ہوجاۓ نہ تو ان دونوں کے درمیان کوئي وراثت ہے اورنہ ہی ایک حیض کے سوا کوئي عدت ہے ، صرف ایک حیض کے آنےتک وہ نکاح نہیں کرسکتی کہ کہيں اسے حمل ہی نہ ہو ، توعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما کہنے لگے : عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہم سے زيادہ علم والے اورہم سے بہتر تھے ۔
اسحاق بن راھویہ اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی ایک روایت میں جسے شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نےبھی اختیار کیا ہے کا بھی یہی مسلک ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ : اس کی تائید قواعد شرعیہ کا مقتضی ہے کہ تین حیض عدت تواس لیے رکھی گئي ہے کہ رجوع کرنے کی مدت لمبی ہوسکے اورخاوند کواس مدت کے اندرغور وفکر کرنے کا موقع ملے اورعدت کے اندر رجوع کرنا ممکن ہوسکے ۔
اورجب بیوي کےلیے رجعت اورواپسی ہے ہی نہيں توپھرعدت کا مقصد تو صرف استبراء رحم ہے جس کےلیے ایک حیض ہی کافی ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ : اس بارہ میں تین طلاق شدہ عورت کی عدت کےساتھ ہم پر کوئي عیب نہیں لگایا جاسکتا ، اس لیے کہ طلاق کے بارہ میں بائن اوررجعی کے بارہ میں عدت کا حکم ایک ہی رکھا گیا ہے ۔ دیکھیں زاد المعاد ( 5 / 196 / 197 ) ۔
اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ خلع والی عورت کی عدت بھی مطلقہ کی طرح تین حیض ہی ہے ، امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نےبڑے احسن انداز میں ان کا رد کرتے ہوۓ کہا ہے :
خلع طلاق نہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دخول کے بعد ہونے والی طلاق جواپنا عدد مکمل نہ کرسکے( یعنی تین طلاق نہ ہوں بلکہ تین سے کم ہوں ) اس پر تین احکام مرتب کیے ہیں جوکہ سب کے سب خلع میں نہيں پاۓ جاتے :
پہلا : یہ کہ خاوند کواس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔
دوسرا :
اس کی تعداد تین ہے توتین کا عدد مکمل ہونے پر وہ اس کے لیے حلال نہیں مگرجب وہ کسی اورمرد سے شادی کرے اوردخول کے بعد اس سے بھی طلاق ہوتو پھر پہلے کے لیے حلال ہوسکتی ہے ۔
تیسرا :
اس میں عدت تین حیض ہیں ۔
تویہ سب کچھ خلع میں نہیں ہے ، لھذا اس بنا پر ہم یہ کہيں گے کہ خلع لینے والی عورت کی عدت اتنی ہی رہے گی جس پرحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم دلالت کرتی ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہے ۔
واللہ اعلم .