جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

یتیموں کی کفالت اورانہيں منہ بولا بیٹا بنانے میں فرق

سوال

کوسوو کے اکثر پناہ گزین امریکہ میں داخل ہورہے ہیں اوران کی دیکھ بھال نصرانی تنظیمیں کررہی ہیں ۔
بعض بھائيوں کا چاہتے ہیں کہ وہ یتیموں کواپنے ہاں گھروں میں رکھیں اوران کی پرورش کے ساتھ ساتھ کھلائيں پلائيں اورکفالت کریں ۔
لیکن ایک عالم نے کہا کہ ایسا کرنا حرام ہے اوراسلام میں منہ بولا بیٹا بنانا جائز نہيں ، اورنہ ہی وہ لوگوں کو یتیموں کی کفالت کرنے پر تیار کرتا اورابھارتا ہے ، توکیا ہمیں اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم یتیم کو اس کا نام بدلے بغیر منہ بولا بیٹا بنالیں ؟
اورکیا یتیم کفالت کرنے والے کے بچے کی طرح ہی شمار ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


یتیم کی کفالت اورمنہ بولابیٹا بنانے میں بہت فرق ہے جسے ہم ذيل کے کچھ نقاط میں بیان کرتے ہیں :

ا - منہ بولا بیٹا بنانایہ ہے کہ : کوئي شخص کسی یتیم بچے کو حاصل کرکے اسے اپنے کسی صلبی بیٹے جیسا بنا کراسے اپنی طرف منسوب کرلے یعنی اسے اس کی ولدیت کے ساتھ پکارا جانے لگے ، اوراس مرد کی محرمات عورتیں اس یتیم بچے کے لیے حلال نہ ہوں اورمنہ بولے بیٹے کے والدکے دوسرے بیٹے اوربیٹیاں اس کے بہن بھائي اوراس شخص کی بہنیں یتیم کی پھوپھیاں بن جائیں اوراسی طرح باقی رشتہ داربھی ۔

دور جاھلیت میں ایسا کیا جاتا تھا ، حتی کہ یہ نام بعض صحابہ کرام کے ناموں سے بھی چمٹے رہے مثلا مقدار بن اسود حالانکہ ان کے والد کانام عمرو تھا لیکن انہيں منہ بولا بیٹا بنانے کی بنا پر مقداد بن الاسود کہا جاتا تھا ۔

اورابتدائے اسلام میں بھی اسی طرح معاملہ چلتا رہا حتی کہ اللہ تعالی نے اسے ایک مشہور قصہ میں حرام قرار دیا کہ زيدبن حارثہ رضي اللہ تعالی عنہ کوزیدبن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پکاراجاتا تھا تواللہ تعالی نے اسے حرام کردیا اورحکم دیا کہ انہيں ان کے آباء کے نام سے پکارا جائے ۔

زید بن حارثہ رضي اللہ تعالی عنہ زینب بنت جحش رضي اللہ تعالی عنہا کے خاوند تھے اوربعد میں زید رضي اللہ تعالی عنہ نے زينب رضي اللہ تعالی عنہا کو طلاق دے دی ۔

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب زينب رضي اللہ تعالی عنہا کی عدت ختم ہوئي تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زيد بن حارثہ رضي اللہ تعالی عنہ کوفرمایا :

جاؤ اس کے پاس میرا ذکرکرنا ، وہ گئے اوروہاں پہنچے تو وہ آٹے میں خمیر ڈال رہی تھیں ، وہ کہنے لگے : اے زينب خوش ہوجا مجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے وہ تجھے یاد کررہے تھے ، وہ کہنے لگیں میں اس وقت تک کچھ بھی نہيں کرونگي جب تک کہ اپنے رب سے مشورہ نہ کرلوں ، یہ کہہ کر وہ اپنی نماز پڑھنے والی جگہ میں چلی گئيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے اوراس کے پاس چلے گئے ۔

اوراسی بارہ میں اللہ تعالی نے اپنا یہ فرمان نازل فرمايا :

{ یاد کرو جب کہ آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ تعالی نے بھی انعام وفضل کیا اورتو نے بھی کہ تواپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھ اوراللہ تعالی سے ڈر ، اورتو اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ تعالی ظاہر کرنے والا تھا ، اورتو لوگوں سے خوف کھاتا تھا حالانکہ اللہ تعالی کا زيادہ حق ہے کہ تو اس سے زيادہ ڈرے ۔

پس جب زيد ( رضي اللہ تعالی عنہ ) نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تا کہ مسلمانوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارہ میں کسی قسم کی تنگي نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی غرض پوری کرلیں اللہ تعالی کا یہ حکم توہو کرہی رہے گا } الاحزاب ( 37 ) ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1428 ) ۔

ب - اب یقینا اللہ تعالی نے منہ بولابیٹا بنانا حرام کردیا ہے اس لیے کہ اس میں نسب کی ضياع ہے حالانکہ ہمیں تو حکم ہے کہ ہم نسب ناموں کی حفاظت کریں ۔

ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نےسنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے :

( جوشخص بھی علم رکھتے ہوئے اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے کی طرح منسوب ہو یہ کفر ہے ، اورجس نے بھی کسی ایسی قوم میں سے ہونے کا دعوی کیا جس میں اس کا نسب نہیں ہے تووہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3317 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 61 ) ۔

حدیث میں کفر کا معنی یہ ہے کہ اس نے کفریہ کام کیا ہے نہ کہ وہ دین سے ہی خارج ہوگيا ۔

اس لیے کہ اس میں اللہ تعالی کے حرام کردہ چيز کوحلال کرنا ہے ۔

اوراس لیے بھی کہ مثلا یتیم جسے منہ بولا بیٹا بنایا جائے اس پر منہ بولا بیٹا بنانے والے نے اپنی بیٹیاں حرام کردی دی ہیں حالانکہ وہ اس کے لیے مباح اورجائز تھیں جسے اللہ تعالی نے حرام نہيں ، اوراسی طرح جس نے منہ بولا بیٹا بنایا ہے اس نے اپنے بعد اس کے لیے وراثت حلال کرلی ، اس میں بھی اللہ تعالی کے حرام کردہ کومباح کرنا ہے ، اس لیے کہ وراثت توصلبی اولاد کا حق ہے اوراس نے غیرصلبی کوبھی اس میں شریک کرلیا ہے ۔

اوریہ بھی ہے کہ اس سے منہ بولا بیٹا بنانے والے کی اولاد اورمنہ بولے بیٹے کے مابین حسد وبغض پیدا ہوگا ۔

اس لیے کہ ان کے بعض حقوق کی حق تلفی ہوگی اوروہ یتیم اورمنہ بولا بیٹا بغیر کسی حق کے کچھ حقوق حاصل کرلے گا ، حالانکہ صلبی بیٹوں کویہ علم ہے کہ ان کے ساتھ وہ اس کا مستحق نہيں تھا ۔

لیکن یتیم کی کفالت یہ ہے کہ کوئي شخص کسی یتیم بچے کواپنےگھر یاکسی دوسری جگہ میں ہی اپنی طرف منسوب کیے بغیر ہی اس کی کفالت کرے اوراس کی پرورش اورنان نفقہ کی ذمہ داری برداشت کرے ، اوراس میں نہ تووہ کسی حرام کردہ کو حلال اورنہ کی حلال کو حرام کرے جیسا کہ منہ بولا بیٹا بنانے میں ہوتا ہے ۔

بلکہ کفالت کرنے والے کواللہ تعالی کے بعد کریم اوراحسان انعام کرنے والے کی صفت سے متصف ہوگا ، اس لیے یتیم کی کفالت کرنے والے کو منہ بولابیٹا بنانے والے پرقیاس نہيں کیا جائے گا اس لیے کہ اس میں فرق پایا جاتا ہے ، اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم بچے کی کفالت کرنے پر ابھارا ہے ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

۔۔۔ اورآپ سے یتیموں کےبارہ میں بھی سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجۓ کہ ان کی خیرخواہی کرنا بہتر ہے اوراگرتم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تووہ تمہارے بھائي ہیں اللہ تعالی بدنیت اورنیک نیت ہر ایک کو خوب جانتا ہے ، اوراگر اللہ تعالی چاہتا تو تمہيں مشقت میں ڈال دیتا یقینا اللہ تعالی غلبہ والا اورحکمت والا ہے البقرۃ ( 220 ) ۔

اورپھررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یتیم کی کفالت کرنے کو جنت میں اپنے ساتھ مرافقت کا سبب بتایا ہے کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ رہے گا ۔

سھل بن سعد رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میں اوریتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہونگے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اوردرمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سافاصلہ کرکے اشارہ کیا ) صحیح بخاری حديث نمبر ( 4998 ) ۔

لیکن یہاں پر ایک تنبیہ کرنا ضروری ہے کہ جب بھی یہ یتیم بچے بالغ ہوجائيں توانہيں کفالت کرنے والے شخص کی عورتوں اوربیٹیوں سے علیحدہ کرنا واجب ہوجائیگا ، یہ نہ ہو کہ وہ ایک جانب تو اصلاح کرے اوردوسری طرف غلطی اورفساد کا مرتکب ہوتا رہے ۔

اوراسی طرح یہ بھی علم میں ہونا چاہیے کہ بعض اوقات کفالت میں یتمی بچی بھی ہوسکتی ہے اورہوسکتا ہے وہ خوبصورت بھی ہو اوربلوغت سے قبل اسے اشتہاء بھی ہو اس لیے کفالت کرنے والے کوچاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کا خیال رکھے کہ کہيں وہ یتیموں کے ساتھ کہيں حرام کام کا ارتکاب نہ کرنے لگيں ، بعض اوقات یہ ہوسکتا ہے اورپھر یہ فساد کاایسا سبب ہوگا جس کی اصلاح کرنا ممکن نہيں ہوگی ۔

پھرہم آخر میں اپنے بھائيوں کویتیموں کی کفالت کرنے پر ابھارتے اوراس کا شوق دلاتے ہیں کہ اس میں بہت زيادہ اجروثواب ہے اوریہ ایک اخلاقی فريضہ ہے جوآج کل بہت ہی نادر لوگوں میں ملتا ہے صرف وہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالی خیروبھلائي کی محبت اوریتیموں اورمسکینوں کی اصلاح اوران پر مہربانی و نرمی کا برتاؤکرنا ھبہ کیا ہے ۔

خاص کر کوسوو اورشیشان میں ہمارے بھائيوں نے بہت ہی زيادہ تکالیف اورتنگی اٹھائي ہے ہم اللہ تعالی سے دعا گوہيں کہ وہ ان کے سختیاں اورتکلیفوں کو دور کرے اوراس سے نجات عطا فرمائے ۔آمین ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب