سوموار 29 جمادی ثانیہ 1446 - 30 دسمبر 2024
اردو

لڑکی کا مہر اس کے بھائي کے مال سے ادا کرنا

5333

تاریخ اشاعت : 12-09-2004

مشاہدات : 6967

سوال

جب والدین کی بیٹی اوربیٹا بھی ہو اوربہت کوشش کے بعد انہیں بیٹی کے لیے رشتہ ملا لیکن ہونے والا داماد مہر کا مطالبہ کررہا ہے ، اورلڑکی کے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں ، اس لیے اب وہ یہ کوشش کررہے ہیں کہ انہیں ان کے بیٹے کا مہر مل جائے تا کہ وہ اپنی بیٹی کا مہر ادا کریں ، وہ اپنے بیٹے کے مہر کو صرف بیٹی کا مہر دینے میں ہی استعمال کررہے ہيں ، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالیں تا کہ ہم اس مشکل سے نکل سکیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ تو بہت ہی عجیب وغریب سی بات ہے کہ بعض ممالک میں مہر لڑکی یا اس کے والدین کو ادا کرنا پڑتا ہے اورخاوند مہر لیتا ہے ، یہ تو بالکل کتاب وسنت کے خلاف ہے ، بلکہ حدیث میں تو ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ مہر کے لیے کوئي چيز تلاش کرے چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو ، اورجب اسے لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کا مہر یہ قرار دیا کہ خاوند کوجتنا قرآن یاد ہے وہ بیوی کو حفظ کروائے ۔

سھل بن سعد رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ :

ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپنے آپ کوآپ کے لیے ھبہ کرتی ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اوراپنی نظریں اوپرکرنے کے بعد نيچے کرلیں جب عورت نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئي فیصلہ نہیں فرمایا تووہ بیٹھ گئي ۔

صحابہ کرام میں سے ایک صحابی کھڑا ہوا اورکہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگرآپ کواس عورت کی ضرورت نہیں تومیرے ساتھ اس کی شادی کردیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

تیرے پاس کچھ ہے ؟ اس صحابی نے جواب دیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ اللہ تعالی کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اپنے گھروالوں کے پاس دیکھو ہوسکتا ہے کچھ ملے جائے ، وہ صحابی گيا اورواپس آ کہنے لگا اللہ کی قسم مجھے کچھ بھی نہیں ملا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اگر لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے وہ گیا اورواپس آکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم لوہے کی انگوٹھی بھی نہيں ملی ، لیکن میرے پاس یہ چادر ہے اس میں سے نصف اسے دیتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

اس کا تم کیا کرو گے اگر اسے تم باندھ لو تواس پر کچھ بھی نہيں ہوگا ، وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ بات سن کر بیٹھ گيا اورجب زيادہ دیر بیٹھا رہا تواٹھ کر چل دیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تواسے واپس بلانے کاحکم دیا جب وہ واپس آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

تجھے کتنا قرآن یاد ہے ؟ اس نے جواب دیا فلاں فلاں سورۃ یاد ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اسے زبانی پڑھ سکتے ہو ؟ وہ کہنے لگا جی ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : جاؤ میں نے جو تمہیں قرآن کریم حفظ ہے اس کے بدلہ میں اس کا مالک بنا دیا ۔

صحیح بخاری ( 4842 ) صحیح مسلم (1425 ) ۔

اس حدیث سے یہ علم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بغیر مہر کے اس مرد سے شادی پر رضامند نہیں ہوئے اورمہر کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے کچھ بھی نہیں پوچھا ، اور بلکہ اس میں یہ بھی ہے کہ عورت کو کچھ نہ کچھ مہرلازمی ادا کیا جائے گا ۔

پھر اللہ تعالی نے عورتوں پرمردوں کو جو فوقیت اورسربراہی عطا فرمائي اورواجب کی ہے اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مرد ہی عورت کوکچھ نہ کچھ ادا کرے گا کیونکہ وہ عورت ذمہ دار ہے اورعورت اس کے پاس کمزور ناتواں ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

مرد عورتوں پر حاکم ہيں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں النساء ( 34 ) ۔

پھر یہ بھی ہے کہ عورت کا یہ حق ہے کہ وہ مرد سے مہر حاصل کرے کیونکہ مرد اس سے استماع کرتا ہے اوریہ مہر اس کے بدلے میں ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی نے اس کے بارہ میں کچھ اس طرح فرمایا :

۔۔۔ اس لیے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر ادا کردو ، اور مہر مقرر ہوجانے کے بعد تم آپس کی رضامندی سے جو طے کرلو اس میں تم پر کوئي گناہ نہیں ، بے شک اللہ تعالی علم والا حکمت والا ہے النساء ( 24 ) ۔

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتےہیں :

اللہ تعالی کایہ فرمان :

اس لیے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر ادا کردو

یعنی جس طرح تم ان سے نفع حاصل کرتے اور استمتاع کرتے ہواس کے بدلے میں انہیں مہرادا کرو ، جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا:

اورتم اسے کیسے لے لوگے حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اوران عورتوں سے تم نے مضبوط اورپختہ عہد وپیمان لے رکھے ہیں

اورجیسا کہ ایک اورجگہ پر یہ فرمایا :

اورعورتوں کوان کے مہر راضي خوشی دے دو النساء ( 4 )۔

اورجیسا کہ اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا :

اورجو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا تمہارے لیے حلال نہیں ہے ۔ دیکھیں تفسیرابن کثیر ( 1 / 475 ) ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس عورت نے بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اوراگر خاوند نے اس سے دخول کرلیا تواس سے نفع اوراستمتاع کرنے وجہ سے عورت کومہر ادا کیا جائے گا ، اوراگروہ آپس میں جھگڑا کریں تو جس کا ولی نہیں اس کا ولی حکمران ہوگا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1102 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2083 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1879 ) ابوعیسی ترمذی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں یہ حدیث حسن ہے ۔

تومندرجہ بالا سطور سے یہ علم ہوا کہ مرد عورت کومہر ادا کرے گا نہ کہ عورت اپنے خاوند کو ادا کرے گی ۔

شیخ عبداللہ بن قعود کہتےہیں :

مہرلینا بیوی کا حق ہے ، اسے مقرر کرنا واجب اور ضروری ہے ، بیوی اوراس کے گھروالوں پر کوئي چيزدینی واجب نہيں لیکن اگر وہ کچھ دینا چاہیں تو ان کی مرضي ۔

تو اس بنا پر یہ جائز نہیں کہ آپ بیٹے کے مال سے کچھ رقم لے کر لڑکی کا مہر ادا کریں ۔

شیخ براک کہتے ہیں :

جب لڑکے کے لیے بالکل ہی مال لینا جائز نہیں تواس طرح لڑکی کےلیے بھی جائز نہیں ۔

ہماری آپ سے گزارش ہے کہ جب آپ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو گے تو وہ تمہاری بچی کےلیے اس مشکل کو آسان کرے دے گا اس لیے لڑکی کو بھی چاہیے کہ صبر وتحمل سے کام لیتی ہوئي اجرو ثواب کی نیت کرے ، اوراللہ تعالی سے دعا میں التجا کرے کہ وہ اس کی مشکل دور کردے ، اوراللہ تعالی اپنے بندے کے قریب ہے ۔

آپ کے ملک میں بسنے والے علماء کرام اور عقل ودانش رکھنے والوں اوراس طرح عام لوگوں پر بھی ضروری ہے کہ وہ اس بری عادت کو تبدیل کرکے سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں کیونکہ صحیح یہی ہے اوراس کی مخالفت کرنی جائز نہیں ، اوراس میں لوگوں کو قرآن وسنت کے دلائل اورعلماء کرام کے اقوال سے قائل کریں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب