الحمد للہ.
اسلام میں غلامی کواصلا کفر کے سبب سے مشروع کیا گیا ہے جس کا معنی کفر کے سبب عجز حکمی ہے یعنی وہ حکما عاجز ہے ، لھذا جب مسلمانوں اورکفار کی آپس میں لڑائي ہواورکفارمیں سے کچھ لوگ قید ہوجائيں توحکمران اورمجاھدین کے قائد کے لیے جائز ہے کہ وہ مجاھدین کے درمیان قیدیوں کوتقسیم کردے یا پھر انہیں کسی شرعی مصلحت کی بنا پر فدیہ لے کر آزاد کردے اوریا پھر ان پر احسان کرتے ہوۓ آزادی دے دے ۔
جب مجاھدین کے درمیان تقسیم کردیے جائيں تووہ سامان کے حکم میں ہوتے ہوۓ غلام بن جائيں گے اورانہیں بیچا جا سکے گا ، لیکن اس کے باوجود شریعت اسلامیہ نے غلام کوآزاد کرنے پر ابھارا ہے اوربہت سے اعمال میں بطور کفارہ ان کی آزادی واجب قرار دی ہے ۔
اصلا غلامی محبوب نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ میں تواصلا غلام آزاد کرنا محبوب ہے ، جب شرعی طریقے سے کوئي غلام بن جاۓ تو لونڈی کے مالک کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی لونڈی سے جماع کرے ۔
لیکن زانی اوربدکارعورتوں کا معاملہ اس کے خلاف ہے ، اللہ تعالی نے تو اسے حرام قرار دیا ہے تا کہ نسب کا اختلاط روکا جاسکے اسی حکم کی وجہ سے زنا حرام قرار دیا گیا ہے تواس لیے اس پر قیاس کرنا صحیح نہیں ۔
کیونکہ جب مالک لونڈی سے جماع کرے اوراس سے بچا پیدا ہو تووہ ام ولد بن جاتی ہے جو کہ مالک کی موت کے بعد آزاد ہوجاۓ گی اس لیے کہ وہ ام ولد یعنی اس کے بیٹے کی ماں ہے جوکہ بیوی کے حکم میں ہوگی ۔
واللہ اعلم .