الحمد للہ.
ملازمين ميں سے جو بھى تنخواہ كى تفصيل كا چارٹ طلب كرے اسے تحرير كر كے دينے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر وہ دستاويز اور چارٹ بنك كى طرف لكھا جا رہا ہو تا كہ قرض حاصل كيا جا سكے تو اس صورت ميں يہ چارٹ اور دستاويز تحرير كرنى جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں اللہ تعالى كى نافرمان اور معصيت پر معاونت ہوتى ہے، بلكہ يہ كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
يونيورسٹى ميں ايك شخص ٹائپ رائٹر كى پوسٹ پر ملازم ہے جو يونيورسٹى كے ملازمين كو بنك سے سودى قرض حاصل كرنے كے ليے تعارفى دستاويز لكھ كر ديتا ہے، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" اگر فوٹو كاپى كرنے والے يا ٹائپ كر كے دينے والے كو علم ہو كہ اس كى لكھى ہوئى دستاويز سے سودى معاملات ميں معاونت كى جائيگى تو ايسى دستاويز كى فوٹو كاپى كرنا، اور تعارفى ورقہ دينا جائز نہيں؛ كيونكہ اس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ احاديث كا عموم دلالت كرتا ہے.
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے اور سود لكھنے، اور سود پر گواہى دينے والے دونوں اشخاص پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
اور اللہ سبحانہ وتعالى كے درج ذيل فرمان كے عموم كى وجہ سے:
اور تم نيكى و بھلائى اور خير كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور برائى اور گناہ و ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كرو، يقينا اللہ تعالى بہت سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 58 ).
واللہ اعلم .