اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

فوتگى كا اعلان اور اس كے احكام

60008

تاریخ اشاعت : 22-07-2005

مشاہدات : 8284

سوال

حرام كردہ فوتگى كے اعلان ميں سے جائز كونسا اعلان ہے؟
اور كيا مسجد ميں كسى شخص كى موت كا اعلان كرنا حرام ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نعى كى تعريف:

النعى كا اطلاق بلند آواز سے فوتگى كى اطلاع دينے پر ہوتا ہے، اور بعض اوقات ميت كے مناقب اور اوصاف پر بھى اس كا اطلاق ہوتا ہے.

امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ان كے ہاں نعى ( فوتگى كا اعلان ) يہ تھى كہ لوگوں ميں كسى شخص كى فوتگى كا اعلان كرنا تا كہ لوگ اس كى جنازے ميں شركت كرسكيں.

ديكھيں: جامع ترمذى صفحہ نمبر ( 239 ).

اور ابن اثير رحمہ اللہ تعالى النہايۃ ميں كہتے ہيں:

نعى الميت يہ ہے كہ جب اس كى فوتگى كا اعلان كيا جائے، اور اس كى خبر دى جائے، اور ميت كى خوبياں بيان كى جائيں.

ديكھيں: النہايۃ لابن اثير ( 5 / 85 ).

اور القيلوبى اپنے حاشيہ ميں كہتے ہيں:

يہ كسى شخص كى موت كا اعلان، اور اس كے مفاخر و صفات اور آثار ذكر كرنا ہيں.

ديكھيں: حاشيۃ القيلوبى ( 1 / 345 ).

دوم:

النعى كى اقسام:

النعى ميت كى موت كى خبر دينا ہے، يا تو صرف خالى اعلان ہى ہے، يا پھر بلند آواز كے ساتھ اس كى خوبياں وغيرہ ذكر كرتے ہوئے فوتگى كا اعلان كرنا ہے، اور ان ميں سے ہر ايك كى قسميں بھى ہيں:

صرف موت كى خبر دينے كے بارہ ميں حنفيہ، شافعيہ، مالكيہ، اور حنابلہ ميں سے جمہور اہل علم وغيرہ بغير كسى اعلان كے موت كى خبر دينے كے جواز كے قائل ہيں، تا كہ ميت كا نماز جنازہ ادا كيا جاسكے.

ديكھيں: فتح القدير ( 2 / 127 ) حاشيۃ الدسوقى ( 1 / 24 ) نھايۃ المحتاج ( 3 / 20 ) الاقناع ( 1 / 331 ) تحفۃ الاحوذى ( 4 / 61 ) السيل الجرار ( 1 / 339 ).

بلكہ علماء كرام كى ايك جماعت تو اس كے استحباب كى قائل ہے:

ديكھيں: البنايۃ شرح الھدايۃ ( 3 / 267 ) الخرشى على مختصر خليل ( 2 / 139 ) الاذكار للنووى صفحہ نمبر ( 226 ).

اور انہوں نے صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى مندرجہ ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نجاشى كى موت كا اعلان اسى دن كيا جس دن اس كى موت ہوئى تھى، اور وہ انہيں لے كر جنازگاہ ميں گئے اور صفيں بنا كر اس كے جنازہ پر چار تكبيريں كہيں.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1333 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1580 )

اور بخارى كى دوسرى روايت ميں ہے:

ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حبشہ والے نجاشى كى موت كى خبر اسى دن دى جس دن وہ فوت ہوا، اور فرمايا:

" اپنے بھائى كے ليے استغفار كرو"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1328 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:

اس حديث ميں فوتگى كى خبر دينےكا استحباب ہے، ليكن يہ اس طريقہ پر نہيں جو جاہليت ميں تھا، بلكہ صرف اس كى نماز جنازہ كى ادائيگى اور اس كا حق ادا كرنے كے ليے، اور جس نعى كى نہى وارد ہوئى ہے اس سے يہ مراد نہيں ، بلكہ اس سے دور جاہليت ميں فوتگى كے اعلان كا طريقہ ہے، جو مفاخرہ وغيرہ پر مشتمل تھا. انتہى

اور انہوں نے مندرجہ ذيل حديث سے بھى استدلال كيا ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك سياہ مرد يا عورت مسجد كى صفائى كيا كرتا تھا تو وہ فوت ہوگيا، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے متعلق دريافت كيا تو صحابہ كہنے لگے:

وہ فوت ہو گيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم نے اس كے متعلق مجھے كيوں نہ بتايا؟! مجھے اس كى قبر بتاؤ يا فرمايا: اس عورت كى قبر كا بتاؤ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى قبر كا بتايا گيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے قبر پر نماز جنازہ پڑھى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 458 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 956 ).

مندرجہ بالا دونوں حديثيں نماز جنازہ اور اس كى دعائے استغفار كے ليے فوتگى كا اعلان كرنے كے استحباب پر ظاہرى دلالت كر رہى ہيں، بلكہ يہ استحباب پر دلالت كرتى ہيں، اوراس ليے بھى كہ يہ اس كا حق نماز جنازہ كى ادائيگى اور جنازہ كے ساتھ جانے كے ليے وسيلہ ہے.

اور نماز جنازہ كے علاوہ كسى اور مصلحت كے ليے فوتگى كے اعلان كے جواز پر مندرجہ ذيل حديث دلالت كرتى ہے:

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو زيد، جعفر، اور ابن رواحۃ رضى اللہ تعالى عنہم كى موت كى خبر اس وقت دى جبكہ ان كى موت كى خبر پہنچى نہ تھى، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جھنڈا زيد رضى اللہ تعالى عنہ نے پكڑا تو وہ شھيد ہوگئے، اور پھر جعفر رضى اللہ تعالى عنہ نے پكڑا تو وہ بھى شہيد ہو گئے، اور پھر ابن رواحۃ رضى اللہ تعالى عنہ نے پكڑا تو وہ بھى شہيد ہو گئے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى آنكھوں سے آنسو جارى تھے، پھر جھنڈا اللہ كى تلواروں ميں سے ايك تلوار نے پكڑا تو اللہ تعالى نے اس كے ہاتھ پر فتح نصيب فرمائى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4262 ).

تو اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان تين صحابيوں كى شہادت كا اعلان كيا، اور يہ اعلان ان كى نماز جنازہ كے ليے نہ تھا، بلكہ مسلمانوں كو اپنے بھائيوں كى خبر دينا اور جو كچھ ان كے ساتھ ميدان جہاد ميں بيت رہا تھا وہ بتانا مقصود تھا.

تو اس بنا پر ہر صحيح مقصد اور غرض كے ليے فوتگى كا اعلان كرنا جائز ہے، مثلا اس كے ليے دعائے استغفار، يا تحليل وغيرہ كے ليے.

ديكھيں: نھايۃ المحتاج ( 3 / 20 ).

اور ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى " الاستذكار " ميں كہتے ہيں:

ابو ھريرہ رضى اللہ تعالى عنہ مجالس ميں بيٹھتے اور كہتے كہ تمہارا بھائى فوت ہو گيا ہے اس كے جنازہ ميں شركت كرو.

ديكھيں: الاستذكار ( 3 / 26 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" جب كوئى شخص فوت ہو جائے تو ميت كے اقرباء اور پڑوسيوں كو نماز جنازہ اور اس كے ليے دعا كرنے، اور اس كے جنازہ ميں شريك ہونے كے ليے بلانا اور اعلان كرنا جائز ہے، تا كہ وہ اسے دفن كرنے ميں ممد و معاون بنيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كو نجاشى رحمہ اللہ تعالى كے فوت ہونے پر اس كى موت كى خبر دى تا كہ وہ اس كا نماز جنازہ پڑھيں. انتھى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 402 ).

اور رہا مسئلہ بلند آواز كے ساتھ ميت كى خوبياں اور صفات ذكر كرتے ہوئے فوتگى كا اعلان كرنا، تو اس اعلان سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منع فرمايا ہے.

حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا:

جب ميں فوت ہو جاؤں تو ميرى فوتگى كا اعلان نہ كرنا، مجھے خدشہ ہے كہ يہ كہيں نعى نہ ہو، كيونكہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے"

جامع ترمذى حديث نمبر ( 986 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن كہا ہے.

ابن ماجۃ كے حاشيہ ميں سندى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اہل جاہليت فوتگى كا اعلان بڑے برے اور غلط طريقہ سے كيا كرتے تھے، لھذا اس سے نہى بھى اسى پر محمول ہے، اور حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كو خدشہ لاحق ہوا كہ كہيں مطلقا نہيں نہ ہو، اس ليے انہوں نے اس كى اجازت نہ دى، جو كہ ورع اورتقوى ميں سے ہے، وگرنہ موت كى خبر دينے ميں جب كوئى مصلحت ہو مثلا خاص كر نماز جنازہ ميں لوگوں كى تعداد زيادہ كرنے كے ليے تو پھر جائز ہے. انتھى

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ميں كہتے ہيں:

ہر قسم كى نعى اور فوتگى كا اعلان ممنوع نہيں ہے، بلكہ وہ نعى اور اعلان ممنوع ہے جو اہل جاہليت كرتے تھے، كہ لوگوں كے گھروں كے دروازوں اور بازاروں ميں جا كر فوتگى كا اعلان كرتا.

سعيد بن منصور رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ہميں ابن عليۃ نے ابن عون رحمہ اللہ سے بيان كيا وہ كہتے ہيں ميں نے ابراہيم رحمہ اللہ سےكہا: كيا وہ نعى يعنى فوتگى كا اعلان مكروہ سمجھتے تھے؟

تو انہوں نے جواب ديا: جى ہاں

ابن عون رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: جب كوئى شخص فوت ہو جاتا تو آدمى سوارى پر سوار ہو كر اونچى آواز سے اعلان كرتا، ميں فلان شخص كى موت كا اعلان كرتا ہوں.

اور ابن سيرين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ميرے علم ميں تو كوئى حرج نہيں كہ شخص اپنے رشتہ دار اور دوست كى موت كا اعلان كرے. انتھى

اور تحفۃ الاحوذى ميں ہے:

ظاہر يہى ہوتا ہے كہ حذيفۃ رضى اللہ تعالى عنہ نے اس حديث ميں نعى سے مراد لغوى معنى ليا ہے، اور اسے مطلقا نعى پر محمول كيا ہے.

اوران كے علاوہ دوسرے اہل علم كا كہنا ہے كہ:

اس حديث ميں نعى اور فوتگى كےاعلان سے مراد جاہليت والى نعى ہے

اصمعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جب عرب ميں كوئى صاحب مرتبہ اور شرف آدمى فوت ہو جاتا تو گھڑ سوار شخص گھوڑے پر سوار ہو كر لوگوں ميں چلتا اور كہتا رہتا: فلان شخص كى موت كا اعلان، يعنى ميں اس كو موت كى خبر كا اعلان كرتا، اور اس كى وفات كو ظاہر كرتا ہوں.

انہوں نے يہ اس ليے كہا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ انہوں نے نجاشى كى موت كا اعلان كيا، اور يہ بھى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زيدبن حارثہ، اورجعفر بن ابو طالب، اور عبد اللہ بن رواحۃ رضى اللہ تعالى عنہم كى شھادت كى خبر دى جب وہ ميدان جنگ ميں شہيد ہوئے تھے.

اور جب سياہ عورت يا نوجوان جو مسجد كى صفائى كيا كرتا تھا اس كى موت كا علم ہونے پر بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا: تم نے مجھے كيوں نہ بتايا.

تو يہ سب كچھ اس بات كى دلالت ہے كہ صرف فوتگى كا اعلان كرنے ميں كوئى حرج نہيں اور نہ ہى يہ حرام ہے، اگرچہ لغوى لحاظ سے اس پر نعى كا اطلاق ہوتا ہے، اور ان احاديث كوجمع كرنے كے ليے اہل علم كا كہنا ہے كہ اس قول ميں: ( وہ نعى سے منع كيا كرتے تھے ) نعى سے مراد وہ نعى اور فوتگى كا اعلان ہے جو دور جاہليت ميں معروف تھا.

ابن العربى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ان سب احاديث سے تين حالات ليے جا سكتے ہيں:

پہلى حالت:

اہل و عيال اور دوست واحباب اور اہل علم اور اصلاح پسند لوگوں كو فوتگى كى اطلاع دينا، تو يہ سنت ہے.

دوسرى حالت:

فخر كے ليے اجتماع بلانا اور لوگوں كو جمع كرنا، يہ مكروہ ہے.

تيسرى حالت:

كسى اور نوع سے اعلان كرنا، مثلا نوحہ كرتے ہوئے، تو يہ حرام ہے. انتھى

ماخوذ از تحفۃ الاحوذى

اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى المجموع ميں كہتے ہيں:

اور احاديث جس كا تقاضا كرتى ہيں اس ميں صحيح وہى ہے جو ہم نے ذكر كيا ہے، كہ جسے علم نہ ہو اسے معلوم كروانے كے ليے فوتگى كااعلان كرنا مكروہ نہيں، بلكہ اس كا مقصد جنازہ ميں زيادہ لوگوں كو شريك كرنا ہے، اور يہ مستحب ہے.

بلكہ مكروہ تو يہ ہے كہ ميت كى محاسن اور صفات فخريہ طور پر بيان كيے جائيں اور لوگوں كے درميان ان اشياء كو ذكر كرتے ہوئے گھوما جائے، اور يہى وہ نعى ہے جس سے منع كيا گيا ہے جو كہ دور جاہليت كى نعى اور فوتگى كےاعلان ميں شامل ہوتى ہے.

احاديث صحيحہ سے فوتگى كااعلان ثابت ہے، اس ليے اسے ختم كرنا جائز نہيں، بعض آئمہ اورمحققين نے يہى جواب ديا. انتھى

اور بغير كسى فخر اور خوبى كے فوتگى كےاعلان ميں آواز بلند كرنے كے متعلق جمہور اہل علم احناف، شافعى، مالكى، اورحنابلہ كا مسلك ہے كہ فوتگى كى بلند آواز كےساتھ اطلاع دينا مكروہ ہے، اس كى دليل حذيفۃ رضى اللہ تعالى عنہ كى بيان كردہ سابقہ حديث ہے.

اوراس ليے كہ ميت كى فوتگى كى بلند آواز كے ساتھ اطلاع دينا صورت كےاعتبار سے دور جاہليت كى نعى اورفوتگى كےاعلان كے مشابہ ہوتى ہے، جس كے بارہ ميں منع كيا گيا ہے، كيونكہ وہ ايك شخص كو گھروں كےدروازوں اور بازاروں ميں باآواز بلند فوتگى كا اعلان كرنے كے ليے بھيجتے تھے.

ديكھيں: العنايۃ شرح الھدايۃ ( 3 / 267 ) الخرشى على مختصر خليل ( 2 / 139 ) المھذب ( 1 / 132 ) الشرح الكبير ( 6 / 287 ).

ابن قدامۃ المقدسى رحمہ اللہ تعالى مغنىميں كہتے ہيں:

اور نعى مكروہ ہے، وہ اسطرح كہ لوگوں ميں منادى كرنےوالا شخص بھيجا جائے كہ فلاں شخص فوت ہو گيا ہے، تا كہ اس كے جنازہ ميں لوگ شريك ہو سكيں،

اور بہت سے اہل علم كا كہنا ہے كہ:

اس ميں كوئى حرج نہيں كہ كوئى شخص اپنے دوست واحباب اور جاننے والوں كو بغير بلند آواز كيے فوتگى كى اطلاع كرے.

ابراہيم نخعى رحمہ اللہ تعالىكہتے ہيں:

جب كوئى شخص فوت ہو جائے تواس كے دوست و احباب كو اطلاع دينےميں كوئى حرج نہيں، بلكہ وہ تو اہل جاہليت كى طرح مجلسوں ميں گھوم پھر كر اطلاع دينے كو ناپسند كرتے تھے، كہ ميں فلاں شخص كى موت كى اطلاع ديتا ہوں. انتھى

اور احناف ميں سےايك گروہ كا مسلك ہے كہ: گليوں بازاروں ميں صرف فوتگى كى اطلاع دينا مكروہ نہيں جبكہ اس ميں فخر نہ ہو.

ان كا كہنا ہے كہ: كيونكہ اس ميں نمازجنازہ ادا كرنے والوں اورميت كے ليے استغفار كرنے والوں كى كثرت ہوتى ہے، اور يہ جاہليت كى نعى كىطرح نہيں، كيونكہ اہل جاہليت تو قبائل كى طرف چيخ و پكار اور آہ بكار اور گريہ زارى اور رونے اور نوحہ كرنے والے كو اطلاع دينے كےليے بھيجتے تھے.

ديكھيں: فتح القدير ( 2 / 128 ).

اور جمہور نے اس كا جواب يہ ديا ہے كہ:

نماز جنازہ اور ميت كے ليےاستغفار كرنے والوں كى كثرت تو اس طريقہ كے علاوہ كسى اور طريقہ سے بھى ہو سكى ہے جس ميں آواز بلند نہ كى جائے.

ديكھيں: فتح البارى ( 3 / 117 ).

اور رہا مسئلہ مسجد كے ميناروں پر فوتگى كا اعلان كرنا تو اس كا جواب سوال نمبر ( 41959 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے اس كا مطالعہ كرليں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب