الحمد للہ.
1 - جواب سے پہلے سائل كے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ تمباكو اور سگرٹ نوشى حرام ہے، ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ سائل كو اس كا علم ہے، اور اگر اس كے علم ميں نہيں تھا تو اسے اب جان لينا چاہيے، اس سب علماء كرام اور عقلاء و دانشور، اور ڈاكٹر حضرات متفق ہيں.
2 - سائل نے اپنے آپ پر لعنت كر كے غلطى كى ہے، شريعت مطہرہ ميں لعنت كرنے والے شخص كے ليے بہت شديد قسم كى وعيد آئى ہے، اس كے بعض دلائل يہ ہيں:
1 - ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر يا عيد الاضحى كے دن عيدگاہ كى طرف نكلے تو عورتوں كے پاس سے گزرے اور فرمايا:
" اے عورتوں كى جماعت صدقہ كيا كرو، كيونكہ مجھے تم دكھائى گئى ہو كہ تمہارى اكثريت جہنم ميں ہے"
عورتوں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ كس وجہ سے؟
تورسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم لعنت بڑى كثرت سے كرتى ہو، اور خاوند كى نافرمانى كرتى ہو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 298 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 80 ).
2 ـ ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" يقينا لعنت كرنے والے لوگ روز قيامت نہ تو شھداء ہونگے اور نہ ہى سفارشى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2598 ).
اور لعنت اللہ تعالى كى رحمت سے دورى اور دھتكارے جانے كو كہا جاتا ہے، تو ايك مسلمان شخص كس طرح اپنے خلاف يہ دعا كر سكتا ہے؟ !!
3 - سائل اگر دوبارہ سگرٹ نوشى كرنے لگے تو وہ سگرٹ نوشى كرنے پر گنہگار ہو گا، اسے توبہ كرنا ہوگى اور اس كے ذمہ قسم كا كفارہ بھى ہو گا كيونكہ اس نے قسم توڑى ہے.
اور قسم كا كفارہ يہ ہے كہ: دس مسكينوں كا كھانا يا ان كا لباس، يا ايك غلام آزاد كرنا، اگر وہ اس كى طاقت نہ ركھتا ہو تو پھر تين يوم كے روزے ركھنا.
واللہ اعلم .