جمعہ 28 جمادی اولی 1446 - 29 نومبر 2024
اردو

مبتدعہ کے انشقاق کے باوجود اسلام کی سر بلندی

6280

تاریخ اشاعت : 11-06-2003

مشاہدات : 6007

سوال

دین اسلامی اعتقادی اعتبارسے بہت سی تقسیمات اور انشقاق کا شکارہا ہواہے ، تو کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کا سبب کیا ہے ؟
باوجود اس کے کہ مسلمانوں کا آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن وہ آپس میں – مختلف گروہوں میں ہونے کے باوجود – وحدت کے شعور کو قائم رکھے ہوۓ ہیں تو یہ کیسے ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو حق کی ھدایت دے اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق دے ، آپ کے علم میں ہونا چاہۓ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک فوت نہیں ہوۓ جب تک کہ انہوں نے اپنی امت کے لۓ راہ کو صاف اور واضح نہيں کردیا ، توایسا کوئ چھوٹا یا بڑا کام نہيں جس میں اللہ تعالی کی طرف سے اس میں علم نہ چھوڑا ہو ، اور حجۃ الوداع جو کہ نبی صلی اللہ نے کیا تھا اس میں اللہ تعالی نےفرمان نازل فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے :

آج کے دن میں نے تمہارے لۓ تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور تمہارے لۓ اسلام بطور دین ہونے پر راضی ہو گيا ۔

اور صحابہ کرام اس منھج پر پوری دقت سے چلے تو اس بنا پر اللہ تعالی نے اس دین حنیف کے متبعین کی مذموم تفریق سے حفاظت فرمائ ۔

اور اسی منھج پر تابعین عظام نے صحابہ کرام کی پیروی کی ، لیکن قرون ثلاثہ جو کہ سب سے افضل ادوار ہیں کے بعد بعض داخلی اور خارجی عوامل کی بنا پر کچھ مذموم اختلافات کا ظہور ہوا ، ذیل میں ہم ان بعض داخلی اور خارجی اسباب کا ذکر کرتے ہیں ۔

خارجی اسباب :

مسلمانوں کا دوسری غیر مسلم اقوام سے اختلاط ، مثلا رومی ، فارسی ، اور یونانی ۔

اور اسی طرح دوسری ملت کے لوگوں سے احتکاک اور میل جول ، مثلا ، یھودیت ، اور نصرانیت ، صابئت ، اور اسی طرح مجوسیت ، اور ھندوستان کے مختلف ادیان ، وغیر ہ ۔

داخلی اسباب :

داخلی اسباب میں کچھ یہ چیزیں شامل ہیں مثلا ، اھواء و خواہشات کی پیروی ، اور شبہات اور شہوات سے تعلق اختیار کرنا ، اور اللہ تعالی کے دین اور اس کی شریعت کا حاصل نہ کرنا اور اس سے اعراض ، اور اسی طرح جہالت اور غلو سے کام لینا ، اور غیر مسلموں سے مشابہت اختیار کرنا ۔ وغیرہ

ان سب اسباب اور اس کے علاوہ دوسرے اسبا ب کے وجود نے مسلمانوں کی صفوف میں تھوڑا سا شگاف ڈال دیا اور انہیں اس صحیح راہ سے علیحدہ کردیا جس پر جمہور مسلمان چل رہے تھے ، تو فرقوں کا ظہور اور بدعا ت کی ایجاد اور ان اقوال کا ظہور شروع ہو ا جو کہ اس منہج کے مخالف تھے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ اور ان بعد ان کے طریقے پر چلنے والے تھے ۔

لیکن یہ یاد رہے کہ گروہ اور فرقے حقیقتا جمہور مسلمانوں کے ہاں مبغوض تھے ، اور ان گروہوں کے پیروکار اہل علم اور خلفاء اور عام مسلمانوں کی جانب سے اپنے غلط عقائد کی بنا پر مخالفت کا سامنا کرتے رہے جس کی بنا پر ان غلط افکار اور اھواء نے مسلمانوں کے درمیان وسعت کے ساتھ انتشار حاصل نہ کیا ، اور بلکہ تاریخ اسلامی کے زیادہ ادوار میں یہ افکار و عقائد ضعف کا شکار رہے ۔

تو – اجمالی طورپر - مسلمانوں کی اکثریت اور جمہور مسلمان سنت صحیحہ پر چلتے رہے ، جیسے ہی کوئ بدعت ان میں رواج پانے لگتی اور اس کا ظہور ہوتا تو علماء اہل سنت اس کی مخالفت اور حق بیان کرنے میں تیزی سے کام کرنے اور اس کی کجی بیان کرنا شروع کردیتے ۔

اور پھر اس اختلاف کی خبر ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دی ہے اور اس سے بچنے کا حکم دیا اور مسلمانوں کی جماعت کا التزام کرنے کا حکم دتے ہوۓ فرمایا :

( یھودی اور عیسا‏ئ بہتر 72 فرقوں میں بٹے جو سب کےسب جہنمی ہیں ، اور میری یہ امت تہتر 73 فرقوں میں بٹے گی ایک کے علاوہ سب جہنم میں جائيں گے ، صحابہ کرام کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ گروہ کون سا ہے ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس طریقے پر چلنے والے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں )

اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( میری امت میں کچھ لوگ ہر وقت حق پر قائم رہیں گے ، جو انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہیں کوئ نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ قیامت قائم ہوجاۓ )

اور مسلمانوں میں وحدت کے شعور کی بقا کے مسئلہ میں کہ یہ ان کے اندر کیسے باقی رہا تو اس کے کئ ایک اسباب ہیں - کچھ کا تو اوپر ذکر کیا جا چکا ہے - لیکن ان اسباب میں سب سے اہم اور واضح سبب یہ ہے کہ دین اسلام ایک ایسا دین ہے جو کہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ، اور یہ دین اللہ تعالی کی حفاظت سے محفوظ ہے ، تو اگر کسی دین کو وہ کچھ جو کہ دین اسلام کو پیش آیا مثلا لڑایاں اور سازشیں اور مختلف ہتھکنڈے وغیرہ استعمال کۓ گۓ ، تو وہ دین بہت دیر پہلے ہی زائل اور ختم ہوچکا ہوتا ( جیسا کہ ہم دوسرے ادیان میں دیکھتے ہیں ) ، اور ہر عقل مند یہ دیکھتا ہے کہ وہی عقید ہ جو کہ آج سے چودہ سو بر س قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس عقیدہ پر تھے وہ آج بھی – اجمالی طور پر - موجود ہے اس میں ذرا برابر بھی نقص واقع نہیں ہوا ، پھر یہ کہ مسلمانون کے نفوس میں اس عقیدہ کی ( حماس اور اس پر چلنے کے اعتبار سے )تجدید ہو تی رہتی ہے ، جس طرح کہ موسم بہار کا پھول ہو ۔

تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دین اسلام اللہ تعالی کا دین حق ہے ، اور اللہ تعالی ہی سیدھے راہ کی ھدایت دینے والا ہے ۔

واللہ تعالی اعلم  .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد