الحمد للہ.
راجح يہى ہے كہ جہاں تصاوير معلق ہوں وہاں نماز ادا كرنا جائز نہيں، اس كے كئى ايك دلائل ہيں:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" فرشتے اس گھر ميں داخل نہيں ہوتے جہاں كتا اور تصاوير ہوں "
متفق عليہ.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر سے واپس آئے تو ميں نے ديوار ميں ايك چھوٹے سے گھروندا پر جس ميں ميرے مجسمے ركھے ہوئے تھے پردہ لٹكايا ہوا تھا، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ديكھا تو اسے پھاڑ ديا اور فرمانے لگے:
روز قيامت سب سے شديد ترين عذاب ان لوگوں كو ہو گا جو پيدا كرنے ميں اللہ كى برابرى كرنے كى كوشش كرتے ہيں"
متفق عليہ.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميرے پاس جبريل عليہ السلام آئے اور فرمانے لگے: ميں كل رات آپ كے پاس آيا تھا ليكن ميں اندر اس ليے داخل نہ ہوا كہ دروازے پر مجسمے تھے اور گھر ميں ايك پردہ تھا جس ميں مجسمے بنے ہوئے تھے، اور گھر ميں ايك كتا تھا، تو گھر كے دروازے پرمجسموں كے بارہ ميں حكم ديا گيا كہ اس كے سر كو كاٹ ديا جائے تو وہ درخت كى شكل كے ہو جائيں اور پردہ كے بارہ ميں حكم ديا گيا كہ اسے كاٹ كر تكيہ بنا ليے جائيں جنہيں روندا جائے، اور كتے كے متعلق حكم ديا گيا كہ اسے نكال ديا جائے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا ہى كيا"
اسے ابو داود اور احمد اور ترمذى نے روايت كيا ہے.
اس مسئلہ ميں شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى كا مختصر سا جواب ہے، شيخ رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا:
كيا كنيسوں اور گرجا گھروں ميں تصاوير ہونے كے ہوتے ہوئے وہاں نماز ادا كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
اور كيا انہيں اللہ تعالى كے گھر كہا جائے گا يا نہيں ؟
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے جواب ديا:
وہ اللہ تعالى كے گھر نہيں، بلكہ اللہ تعالى كے گھر تو مسجديں ہيں، بلكہ وہ تو كفر كے گھر ہيں جہاں اللہ تعالى كے ساتھ كفر كا ارتكاب كيا جاتا ہے، اگرچہ وہاں بعض اوقات اللہ كا ذكر بھى كيا جاتا ہے، لہذا وہ اس كے مالكوں كے لحاظ سے گھر ہيں، اور ان كے مالك كفار ہے، لہذا وہ كفار كى عبادت كے گھر ہيں.
اور وہاں نماز ادا كرنے كے متعلق امام احمد وغيرہ كے مذہب ميں علماء كرام كے تين اقوال ہيں:
وہاں نماز ادا كرنا مطلقا منع ہے، يہ امام مالك رحمہ اللہ كا قول ہے.
مطلقا اجازت ہے: يہ قول امام احمد كے بعض اصحاب كا ہے.
اور تيسرا قول جو كہ صحيح بھى ہے اور عمر بن خطاب وغيرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے، اور امام احمد وغيرہ نے بيان كيا ہے كہ:
اگر تو وہاں تصاوير اور مجسمے ہوں تو وہاں نماز ادا نہ كى جائے، كيونكہ جس گھر ميں تصاوير ہوں وہاں فرشتے داخل نہيں ہوتے، اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس وقت تك كعبہ ميں داخل نہيں ہوئے جب تك وہاں سے تصاوير مٹا نہ دى گئيں، اور اسى طرح عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا تھا: ہم ان كے كنيسوں اور گرجا گھروں ميں تصاوير كے ہوتے ہوئے نہيں جائيں گے.
اور يہ بالكل قبر پر بنى ہوئى مسجد كى طرح ہے، صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے حبشہ كى سرزمين كے ايك گرجے اور اس كى زيبائش اور تصاوير كا ذكر كيا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ لوگ ايسے تھے جب ان ميں كوئى نيك اور صالح شخص فوت ہو جاتا تو وہ اس كى قبر پر مسجد تعمير كر ليتے، اور اس ميں يہ تصاوير بنا ليتے يہى لوگ روز قيامت اللہ تعالى كے ہاں سب سے زيادہ برے لوگ ہونگے"
ليكن اگر اس ميں تصاوير نہ ہوں، تو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم نے ايسے كنيسہ ميں نماز پڑھى تھى.
واللہ اعلم .