الحمد للہ.
الحمدللہاول :
کسی بھی عورت – چاہے وہ کنواری ہو یا پہلے سے شادی شدہ – کا اپنے ولی کی اجازت کےبغیر شادی کرنا جائز نہیں ، اس کا جواب کئي ایک سوالوں کے جواب میں گزر چکا ہے آپ تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 2127 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔
دوم :
عادتا اورغالب طور پر بھی گھر والے ہی اپنی بیٹی کے لیے زيادہ مناسب رشتہ تلاش کرسکتے ہیں اوروہی اس کی تحدید کر سکتے ہیں کہ ان کی بیٹی کے لیے کون بہتر رہے گا ، کیونکہ غالب طور پر بیٹی کو زيادہ علم نہيں ہوتا اورنہ ہی اسے زندگی کا زيادہ تجربہ ہے ، ہوسکتا ہے وہ بعض میٹھے بول اورکلمات سے دھوکہ کھاجائے اوراپنی عقل کی بجائے اپنے جذبات سے فیصلہ کرڈالے ۔
اس لیے لڑکی کو چاہیے کہ اگر اس کے گھروالے دینی اورعقلی اعتبار سے صحیح ہوں تو وہ اپنے گھر والوں کی رائے سے باہر نہ جائے بلکہ ان کی رائے قبول کرلے ، لیکن اگر عورت کےولی بغیر کسی صحیح سبب کے رشتہ رد کریں یا ان کا رشتہ اختیار کرنے میں معیار ہی غیر شرعی ہو مثلا اگر وہ صاحب دین اوراخلاق والے شخص پر کسی مالدار فاسق کو مقدم کریں ۔
تو اس حالت میں لڑکی کےلیے جائز ہے کہ وہ اپنا معاملہ شرعی قاضی تک لے جائے تا کہ اسے شادی سے منع کرنے والے ولی کی ولایت ختم کرکے کسی اورکو ولی بنایا جائے ۔
سوال کرنے والی بہن کے سوال میں یہ موجود نہیں ، وہ اس طرح کہ انہوں نے ہونے والے خاوند میں جو کچھ دیکھا ہے کہ خاوند کا اخلاق اچھا نہیں جس وجہ سے وہ اس سے شادی کرنے پر رضامند نہیں جس میں ان کی بیٹی کی مصلحت ہے ۔
سوم :
لڑکی اورلڑکے میں جومحبت پیدا ہوتی ہےہوسکتاہے اس کی ابتدا ہی غیر شرعی ہو مثلا ایک دوسرے سے میل جول ، اورخلوت ، کلام اوربات چيت کرنا اورایک دوسری کی تصاویر کا تبادلہ وغیرہ یہ سب کام حرام اورغیر شرعی ہیں۔
اگر تو معاملہ ایسا ہی ہے تولڑکی کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس نے حرام کام کیا ہے یہ اس کے لیے مرد کی محبت کا پیمانہ نہیں ، اس لیے کہ یہ تو عادت بن چکی ہے کہ مرد اس عرصہ میں بہت زيادہ محبت اور اپنی استطاعت کے مطابق اچھے اخلاق اوراچھے برتاؤ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ، تا کہ وہ لڑکی کے دل کو اپنی جانب مائل کرسکے تا کہ اس کی خواہش اورمطلب پورا ہوسکے ۔
اوراگر اس کا مقصد اورمطلب حرام کام ہو تو پھر وہ لڑکی اس بھیڑیے کا شکار ہو کر اپنے دین کے بعد سب سے قیمتی اورعزيز چيز بھی گنوا بیٹھتی ہے ، اوراگر اس کا مقصد شرعی ہو – یعنی شادی کرنا – تو پھر اس نے اس کےلیے ایک غیر شرعی طریقہ اختیار کیا ہے ، اورشادی کے بعد لڑکی اس کے اخلاق اورسلوک وبرتاؤ سے تنگ ہوگی ، اس طرح کے معاملات میں اکثر بیویوں کا یہی انجام ہوتا ہے ۔
اس کے باوجود والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے کوئي اچھا اوربہتر رشتہ تلاش کریں ، اورانہیں چاہیے کہ وہ اپنے ہونے والے داماد کے بارہ میں بہت زيادہ تحقیق کریں ، کسی بھی شخص کو کسی گرما گرم بخث سے پہچاننا ممکن نہيں ہوسکتا ہے اس کا کوئي سبب ہے جس نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہو ۔
اعتبار تواس کے دین اوراخلاق کا ہے اورگھر والوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے متعلق علم ہونا چاہیے :
دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
لڑکی کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی اطاعت کرے کیونکہ وہ اس کی مصلحت کوزيادہ جانتے ہیں ، وہ صرف یہ چاہتے ہيں کہ ہماری بیٹی اپنے خاوند کےساتھ سعادت کی زندگی بسر کرے جو اس کی حرمت کا خیال رکھے اوراس کے حقوق کی بھی پاسداری کرنے والا ہو ۔
ہم سوال کرنے والی بہن کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سوال نمبر ( 23420 ) کے جواب کا مطالعہ بھی کرے یہ اس کے لیے بہت ہی اہم ہے ۔
واللہ اعلم .