الحمد للہ.
محبت کی شادی مختلف ہے ، اگرتوطرفین کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اورمحبت کرنے والوں نے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگي ، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائي ہے ۔
جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس کا اس کا نکاح کرنا جائز ہے یا کسی لڑکی نےکسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ) ۔
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں سندھی رحمہ اللہ تعالی کا کہتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :
( دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے )
یہاں پر لفظ " متحابین " تثنیہ اورجمع دونوں کا احتمال رکھتا ہے ، اورمنعی یہ ہوگا : اگرمحبت دو کے مابین ہو تو نکاح جیسے تعلق کے علاوہ ان کے مابین کوئي اورتعلق اوردائمی قرب نہیں ہوسکتا ، اس لیے اگر اس محبت کے ساتھ ان کے مابین نکاح ہو تو یہ محبت ہر دن قوی اور زيادہ ہوگی ۔ انتھی ۔
اوراگرمحبت کی شادی ایسی محبت کے نتیجہ میں انجام پائي ہو جو غیرشرعی تعلقات کی بناپرہو مثلا اس میں لڑکا اورلڑکی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں ایک دوسرے سے خلوت کرتے رہیں اوربوس وکنار کریں اوراس طرح کے دوسرے حرام کام کے مرتکب ہوں ، تویہ اس کا انجام برا ہی ہوگا اوریہ شادی زيادہ دیر نہیں چل پائے گی ۔
کیونکہ ایسی محبت کرنے والوں نے شرعی مخالفات کا ارتکاب کرتےہوئے اپنی زندگی کی بنیاد ہی اس مخالفت پررکھی ہے جس کا ان کی ازدواجی زندگي پر اثر ہوگا اوراللہ تعالی کی طرف سے برکت اورتوفیق نہیں ہوگی ، کیونکہ معاصی کی وجہ سے برکت جاتی رہتی ہے ۔
اگرچہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو یہ سبز باغ دکھا رکھے ہیں کہ اس طرح کی محبت جس میں شرعی مخالفات پائي جائيں کرنے سے شادی زيادہ کامیاب اور دیرپا ثابت ہوتی ہے ۔
پھر یہ بھی ہے کہ دونوں کے مابین شادی سے قبل جو حرام تعلقات قائم تھے وہ ایک دوسرے کو شک اورشبہ میں ڈالیں گے ، توخاوند یہ سوچے گا کہ ہوسکتا ہے جس طرح اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے کسی اورسے بھی تعلقات رکتھی ہو کیونکہ ایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے ۔
اوراسی طرح بیوی بھی یہ سوچے اورشک کرے گی کہ جس طرح میرے ساتھ اس کے تعلقات تھے کسی اورکسی لڑکی کے ساتھ بھی ہوسکتے ہیں اورایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے ۔
تو اس طرح خاوند اوربیوی دونوں ہی شک وشبہ اورسوء ظن میں زندگی بسر کریں گے جس کی بنا پر جلد یا دیر سے ان کے ازدواجی تعلقتا کشیدہ ہو کر رہیں گے ۔
اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پریہ عیب لگائےاوراسے عار دلائے اوراس پر طعن کرے کہ شادی سے قبل اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے اوراس پر راضي رہی جواس پر طعن وتشنیع اورعارکاباعث ہو گا اوراس وجہ سے ان کے مابین حسن معاشرت کی بجائے سوء معاشرت پیدا ہوگی ۔
اس لیے ہمارے خیال میں جوبھی شادی غیر شرعی تعلقات کی بنا پر انجام پائے گي وہ غالبا اورزيادہ دیرکامیاب نہیں رہے گی اوراس میں استقرار نہیں ہوسکتا ۔
اوروالدین کا اختیار کردہ رشتہ نہ تو سارے کا سارا بہتر ہے اور نہ ہی مکمل طور پربرا ہے ، لیکن اگر گھروالے رشتہ اختیار کرتے ہوئے اچھے اوربہتر انداز کا مظاہرہ کریں اور عورت بھی دین اورخوبصورتی کی مالک ہو اورخاوند کی رضامندی سے یہ رشتہ طے ہو کہ وہ اس لڑکی سے رشتہ کرنا چاہے تو پھر یہ امید ہے کہ یہ شادی کامیاب اور دیرپا ہوگی ۔
اوراسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کو یہ اجازت دی اوروصیت کی ہے کہ اپنی ہونے والی منگیتر کو دیکھے :
مغیرہ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے منگنی کی تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
( اسے دیکھ لو کیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار کا باعث بنے گا )
سنن ترمذي حديث نمبر ( 1087 ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 3235 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن کہا ہے ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں کہ ( ایسا کرنا تمہارے درمیان زيادہ استقرار کا باعث ہوگا ) کا معنی یہ ہے کہ اس سے تمہارے درمیان محبت میں استقرار پیدا ہوگا اورزيادہ ہوگي ۔
اوراگر گھروالوں نے رشتہ اختیار کرتے وقت غلطی کی اورصحیح رشتہ اختیار نہ کیا یا پھر رشتہ اختیار کرنے میں تو اچھا کام کیا لیکن خاوند اس پر رضامند نہیں تو یہ شادی بھی غالب طور پر ناکام رہے گی اوراس میں استقرار نہیں ہوگا ، کیونکہ جس کی بنیاد ہی مرغوب نہیں یعنی وہ شروع سے ہی اس میں رغبت نہیں رکھتا تو وہ چيز غالبا دیرپا ثابت نہیں گی ۔
واللہ اعلم .