جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

لاٹرى ميں شراكت كرنا

6476

تاریخ اشاعت : 31-05-2005

مشاہدات : 7759

سوال

كيا لاٹرى ٹكٹ خريدنا حرام قمار بازى ميں شمار ہوتى ہے؟
نادر اور كبھى كبھار قمار بازى كا دعوى كرنے والے شخص كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

بعض خيراتى تنظيميں اپنے تعليمى اور علاج معالجہ اور خدمت خلق كے شعبوں وغيرہ كے اخراجات پورے كرنے كے ليے لاٹرى كا اہتمام كرتى ہيں، تا كہ مال حاصل ہو سكے، كيا شرعى طور پر ايسا كرنا جائز ہے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

لاٹرى سسٹم قمار بازى كا عنوان ہے، جو كہ جوا اور كتاب وسنت اور اجماع امت كى رو سے حرام ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب، اور جوا، اور درگاہيں اور فال نكالنے كے تير گندى باتيں اور شيطانى عمل ہيں، ان سے اجتناب كرو، تا كہ تم كامياب ہو جاؤ، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ وہ تمہارے مابين شراب اور جوے كے متعلق عداوت و دشمنى پيدا كردے، اور تمہيں اللہ تعالى كے ذكر اور نماز سے روك دے، تو كيا تم باز آنے والے ہو.

اور كسى بھى مسلمان شخص كے ليے مطلقا قمار بازى اور جوا كھيلنا جائز نہيں، چاہے قمار بازى سے حاصل ہونے والا مال نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں صرف كيا جائے يا كسى اور جگہ؛ كيونكہ دلائل كے عموم سے يہ مال حرام اور خبيث ہے؛ اور اس ليے بھى كہ جوا اور قمار بازى كے ذريعہ كى گئى رقم اس كمائى ميں سے ہے جس كا ترك كرنا اور اس سے بچنا واجب اور ضرورى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 442 ).

اور شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

لاٹرى ميں شراكت كا حكم كيا ہے، شراكت اس طرح ہے كہ: كوئى شخص ٹكٹ ادا كرے اور اگر اس كے نصيب ميں نمبر نكل آئے تو اسےايك بڑى رقم حاصل ہوتى ہے، يہ علم ميں رہے كہ اس شخص كى نيت يہ ہے كہ وہ اس مال سے خيراتى كام كرے گا، اور اس سے مجاھدين كا تعاون كرے گا تا كہ وہ اس مال سے استفادہ كريں؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

سائل كى ذكر كردہ صورت يہ ہے كہ: وہ ٹكٹ خريدتا ہے اور پھر ہو سكتا ہے اس كا نمبر نكلے - جيسا كہ وہ كہہ رہا ہے - تو اسے بہت زيادہ منافع ہو گا، يہ جوے اور قمار بازى ميں شامل ہوتا ہے، جس كے بارہ ميں اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب، اور جوا، اور درگاہيں اور فال نكالنے كے تير گندى باتيں اور شيطانى عمل ہيں، ان سے اجتناب كرو، تا كہ تم كامياب ہو جاؤ، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ وہ تمہارے مابين شراب اور جوے كے متعلق عداوت و دشمنى پيدا كردے، اور تمہيں اللہ تعالى كے ذكر اور نماز سے روك دے، تو كيا تم باز آنے والے ہو، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت و فرمانبردارى كرتے رہو، اور احتياط كرو، اور اگر تم پھر گئے تو پھر جان لو ہمارے رسول كے ذمہ تو صاف صاف پہنچا دينا ہے.

يہى تو جوا ہے- وہ يہ كہ ہر وہ معاملہ جو چٹى اور مال حاصل ہونے كا مابين گردش كرے- اس كا لين دين كرنے والے كو علم نہ ہو كہ آيا اسے چٹى پڑ جائے گا يا كچھ حاصل ہو گا، وہ سارا معاملہ حرام ہے، بلكہ وہ كبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتا ہے.

اور انسان يہ ديكھے كہ اللہ تعالى نے اسے بتوں كى عبادت اور شراب اور فال نكالنے كے تيروں كے ساتھ ملايا ہے تو اس پر اس كى قباحت كوئى مخفى نہيں رہتى، اور ہميں اس ميں جو كچھ نفع ہونے كى توقع ہوتى ہے، وہ سب نقصان كے پہلو ميں مغمور ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

آپ سے شراب اور جوے كے متعلق دريافت كرتے ہيں، آپ كہہ ديجئے كہ ان دونوں ميں بہت بڑا گناہ اور لوگوں كے ليے نفع ہے، اور ان دونوں كا گناہ ان كے نفع سے بڑا اور زيادہ ہے البقرۃ ( 219 ).

آپ اس آيت پر غور وفكر كريں كہ اللہ تعالى نے منافع كو جمع كے صيغہ كے ساتھ اور گناہ كو مفرد كے صيغہ كے ساتھ ذكر كيا ہے، اور يہ نہيں كہا كہ: اس ميں بہت سے گناہ ہيں اور لوگوں كے ليے منافع ہيں، بلكہ اللہ تعالى نے تو يہ فرمايا ہے كہ: اس ميں بہت بڑا گناہ ہے، جو كہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ منافع چاہے جتنے بھى زيادہ ہوں اور ان كى تعداد چاہے جتنى بھى ہو وہ اس بڑے گناہ ميں ڈوبے ہوئے ہيں، اور بڑا گناہ اس سے زيادہ راجح ہے، لہذا ان دونوں كا گناہ ان كے فائدے سے زيادہ بڑا ہے، چاہے فائدے جتنے مرضى حاصل ہوں....

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 441 ).

اور آپ كا يہ كہنا كہ: نادر اور كبھى كبھار جوا كھيلتا ہے، يہ تو بالكل ايسے ہى جيسے كوئى كہے كہ وہ كبھى كبھار اور نادر زنا كرتا ہے، اور كبھى كبھار اور نادر ہى چورى كرتا ہے، اور نادر اور كبھى كبھار ہى جھوٹ بولتا اور كذب بيانى سے كام ليتا ہے، تو كيا اس كا حرام كام كو نادر طور پر كبھى كبھار كرنا گناہ سے معاف كردے گا اور اسے اللہ تعالى كى ناراضگى سے بچا لے گا، پھر اسے كيا علم كہ يہ نادر طور پر كام كرنا ترقى نہيں كرے گا اور غالب اور زيادہ نہيں ہو گا حتى كہ اس كى يہ عادت ہى بن جائے؟

بلكہ يہى تو غالب ہے، خاص كر جو قمار بازى اور جوا كھيلنے ميں مبتلا ہو چكا ہے اسے اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرنا چاہيے اور اللہ سے ڈرتے ہوئے اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء كو ترك كرتے ہوئے ان سے اجتناب كرنا چاہيے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد