الحمد للہ.
اول:
جس كى ملكيت ميں مال ہو اس پر زكاۃ واجب ہے، اور اس پر قرض بھى ہو تو اس پر زكاۃ واجب ہے، اور يہ قرض زكاۃ پر اثر انداز نہيں ہوتا، امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كا مسلك يہى ہے.
نصاب كا مالك ہو جانے والے پر زكاۃ واجب ہونے كے عمومى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں.
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے عمال كو زكاۃ لينے كے ليے روانہ كيا كرتے، اور انہيں يہ تفصيل معلوم كرنے كا حكم نہيں ديتے تھے كہ وہ اصحاب اموال سے دريافت كريں كہ آيا ان پر قرض ہے يا نہيں ؟
اور اس ليے بھى كہ زكاۃ كا تعلق بعينہ مال كے ساتھ ہے، اور قرض كا تعلق ذمہ كے ساتھ ہے، لہذا اس ميں سے ايك دوسرے كے ليے مانع نہيں.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور جو قرض اس كے ذمہ ہے اہل علم كے صحيح اقوال كے مطابق وہ قرض زكاۃ كى ادائيگى ميں مانع نہيں" انتہى
مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 14 / 189 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" ميرے نزديك راجح يہ ہے كہ زكاۃ مطلقا واجب ہے، اگرچہ اس كے ذمہ قرض بھى ہو جو نصاب ميں كمى كرتا ہو، مگر وہ قرض جس كى ادائيگى كا وقت زكاۃ كا وقت آنے سے قبل آجائے تو وہ قرض ادا كرنا واجب ہے، اور پھر جو مال باقى بچے اس كى زكاۃ ادا كرے" انتہى
ديكھيں: الشرح الممتنع لابن عثيمين ( 6 / 39 ).
مزيد تفصيل كے ليے ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 317 ) نھايۃ المحتاج ( 3 / 133 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 23 / 247 ).
اور اس بنا پر جب زكاۃ كے نصاب والے مال پر ايك سال گزر جائے تو آپ كے بھائى پر زكاۃ واجب ہے، اور اس پر موجود قرض كو صرف نظر كيا جائے گا ليكن اگر قرض كى ادائيگى كا وقت زكاۃ كے وقت سے آگيا تو پھر قرض ادا كيا جائے گا اور باقى بچنے والے مال پر زكاۃ ادا كي جائے گى.
دوم:
جس كى ملكيت ميں نصاب كے مطابق نقدى ہو اور اس پر ايك برس گزر جائے تو اسے ( 2.5 % ) كے حساب سے زكاۃ ادا كرنى واجب ہے.
اور زكاۃ كا نصاب يہ ہے: پچاسى گرام ( 85 ) سونا، يا پانچ سو پچانويں ( 595 ) گرام چاندى كى قيمت كے برابر نقدى ہے.
اور اس پر سال كا حساب اس وقت سے شروع كيا جائے گا جب وہ نصاب كو پہنچے، نا كہ اس نے جب بنك ميں رقم ركھى تھى.
اور اگر وہ اس مال كو شرعى طريقہ پر تجارت ميں لگاتا ہے، تو پھر اصل رقم اور منافع دونوں كى زكاۃ دينا لازم ہے، اور يہ اصل رقم پرزكاۃ كےوقت ہى ادا كى جائے گى.
اگر اس نے سال كے آخرى تين ماہ ميں منافع حاصل كيا اور اصل مال پر سال گزرنے پر سارے مال پر زكاۃ واجب ہو گى: يعنى منافع كے ساتھ مال پر، حالانكہ منافع پر ايك سال نہيں گزرا، مگر وہ سال گزرنے ميں اصل مال كے تابع ہے.
يہاں ايك بات پر متنبہ رہنا چاہيے كہ سودى فائدہ كے بدلے ميں بنك ميں رقم ركھنى كبيرہ گناہ اور حرام ہے جسے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حرام كيا ہے.
حفاظت كى ضرورت كے پيش نظر بنك ميں رقم ركھنا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ رقم بغير فائدہ كے ركھى جائے، مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 49677 ) اور ( 22392 ) كے جوابات ديكھيں.
سوم:
زكاۃ صرف مخصوص اموال ميں واجب ہے جسے شريعت نے بيان كيا ہے ان اموال ميں نقد رقم، چوپائے ( اونٹ، بھيڑ بكرى، گائے ) تجارتى سامان شامل ہيں، ليكن انسان كى ملكيت ميں جو گھر، يا گاڑى، يا عمارتيں ہيں ان پر زكاۃ نہيں، ليكن اگر يہ بھى تجارتى اغراض كے ليے ہوں تو پھر ان ميں بھى زكاۃ ہو گى.
اور عادتا فيكٹرياں سامان، اور پيداوارى اشياء پر شامل ہوتى ہيں جس كى تجارت كى جاتى ہے، تو اس كى زكاۃ تجارت كى زكاۃ ادا كى جائے گى، تو اس طرح سال كے آخر ميں اس كى قيمت سے ( 2.5 % ) كے حساب سے زكاۃ نكالى جائےگى.
اور جو عمارتيں اور مشينيں تجارت اور فروخت كرنے كى غرض سے نہ ہوں ان ميں زكاۃ نہيں ہے.
كشاف القناع ميں ہے كہ:
اور صناعى آلات اور تجارتى سامان اور عطار اور تيلى كى شيشيوں ( يعنى انا كے باردانہ ) وغيرہ ميں زكاۃ نہيں ہے، مثلا تيل اور شہد كا كاروبار كرنے والے كے برتنوں پر، ليكن اگر وہ يہ برتن اور شيشياں فروخت كرنے كى غرض سے ہوں تو پھر اس ميں بھى زكاۃ ہو گى كيونكہ يہ تجارتى مال ہے. اھـ
ديكھيں: الكشاف القناع ( 2 / 244 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
پرنٹنگ پريس، اور فيكٹريوں كے مالكان پر ان اشياء ميں زكاۃ ہے جو فروخت كے ليے تيار كردہ ہيں، ليكن وہ اشياء تو استعمال كے ليے ہيں ان ميں زكاۃ نہيں، اور اسى طرح جو گاڑياں اور قالين، اور برتن وغيرہ استعمال كے ليے ہوں ان ميں بھى زكاۃ نہيں ہے.
اس كى دليل ابو داود كى مندرجہ ذيل حديث ہے جسے حسن سند كے ساتھ روايت كيا گيا ہے:
سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ ہم جو اشياء فروخت كے ليے تيار كريں اس كى زكاۃ ادا كريں" انتہى
ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 14 / 186 ).
واللہ اعلم .