الحمد للہ.
ہمارے علم کے مطابق اس معاملے کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ اور مختص دعا کا وجود نہیں ہے، لیکن آپ اللہ سے خود ہی دعا کریں کہ اللہ تعالی آپکو نیک بیوی مہیا فرمائے۔
جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو دعائے استخارہ سکھائی ہے، جس کا مطلب ہے کہ : ہم اللہ تعالی سے التماس کریں کہ ہمارے دینی و دنیاوی تمام امور کیلئے دین اور دنیا کے لحاظ سے بہتر چیز ہمارے لئے پسند فرمائے، اور یہ دعا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام معاملات کیلئے استخارہ ایسے سیکھایا کرتے ، جیسے آپ ہمیں قرآن کی کوئی سورت سیکھا رہے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی بھی کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض رکعات کے علاوہ دو رکعت [نفل ]ادا کرے، اور پھر کہے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ العَظِيمِ؛ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلاَّمُ الغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأمْرَ [یہاں اپنے کام کا نام لے]خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ [یہاں اپنے کام کا نام لے] شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ
ترجمہ: یا اللہ! میں تیرے علم کے صدقے اس کام میں خیریت چاہتا ہوں اور تیری قدرت کے صدقے تجھ سے طاقت چاہتا ہوں اور تیرے فضل کا سوالی ہوں، تو ہی قدرت رکھتا ہے، میں قدرت نہیں رکھتا، اور تو ہی علم رکھتا ہے، میں علم نہیں رکھتا، تو ہی غیب کی باتوں کو جاننے والا ہے، یا اللہ! اگر تو جانتا ہے، کہ یہ کام میرے دین و دنیا اور انجام کے لئے بہتر ہے، تو اس کو میری قسمت (مقدر) میں کر دے اور اس کو آسان بنا کر، اس میں برکت بھی ڈال دے، یا اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین اور دنیا اور انجام کے لئے برا ہے تو تو اس کو مجھ سے ہٹا دے ، اور اس کام کو مجھ سے دور کردے، اور پھر جو امر بہتر ہو ، اور جہاں بھی ہو میرے لئے مقدر کر دے، پھر اس پر مجھ کو راضی بھی کردے)بخاری: (1109)
طرفین میں سے ہر ایک کی توجہ کیلئے دین داری اور اخلاق سے بڑھ کوئی چیز نہیں ہے۔
• چنانچہ لڑکے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے ولی صاحبان کو نصیحت فرمائی کہ:
"جب تمہارے پاس ایسا لڑکا [رشتہ کیلئے آئے] جسکے اخلاق اور دینداری کو تم پسند کرتے ہو، تو اسکی شادی کردو، اگر ایسا نہیں کروگے، تو زمین میں فتنہ، اور لمبا چوڑا فساد ہوگا" ترمذی: (1084) ابن ماجہ: (1967)
اور لڑکی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
"[معاشرے میں عام طور پر]عورت سے شادی چار چیزوں کی وجہ سے کی جاتی ہے: مالداری، حسب نسب، خوبصورتی، اور دین داری، چنانچہ تم دیندار کو تلاش کرلو، تمہارے ہاتھ خاک آلود کردے گی"
بخاری ( 4802 ) اورمسلم ( 1466 ) نے اس روایت کو بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کا مطلب ہے کہ صاحبِ مُروّت، اور دیندار شخص کو یہی زیب دیتا ہے کہ اسکا مطمعِ نظر ہر چیز کے بارے میں دینداری ہی ہو، خصوصا ایسے معاملات میں جو انسان کے ساتھ لمبے عرصے تک رہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے خواہشمند افراد کو دیندار لڑکی تلاش کرنے کا حکم دیا، کیونکہ دینداری ہی اصل ہدف ہے"انتہی
" فتح الباری " ( 9 / 135 )
سوال کے دوسرے حصہ میں مذکور قرآن پاک کے ذریعے راہنمائی حاصل کرنے کے بارے یہ ہے کہ:
اگر اس سے آپکی مراد فال نکالنا مراد ہو، تو یہ حرام کام ہے، اور قرآن مجید سے فال نکالنے کے خود ساختہ طریقوں میں سے یہ بھی ہے کہ ، قرآن مجید کو کہیں سے بھی کھولا جائے؛ تو اگر نظر رحمت، یا ثواب والی آیات پر پڑتی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ بندہ جو بھی کام کرنا چاہتا ہے، وہ اچھا اور درست کام ہے!! اور اگر معاملہ بر عکس ہو تو اسکا مطلب بھی برعکس ہوگا، دین میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، یہ بے بنیاد طریقہ ہے، اور اللہ کے مؤمن بندوں کو گمراہ کرنے کیلئے شیاطین کا طریقہ ہے۔
اور اگر قرآن پاک سے راہنمائی لینے سے آپکی مراد یہ ہو کہ اتباعِ قرآن کی جائے، اور اسکے احکامات پر عمل کیا جائے، تو حقیقت میں یہی وہ سعادت مندی ہے جس سے بڑھ کر کوئی سعادت مندی نہیں، اور وہ ہے کتاب و سنت کی پیروی، اور اللہ کے ہاں قیامت کے دن نجات، اور دنیا میں مخلوق کیلئے یہی ہدایت کا واحد راستہ ہے، اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
ذلك الكتاب لا ريب فيه هدىً للمتقين
یعنی: اس کتاب میں کوئی شک نہیں، [یہ کتاب]متقین کیلئے [کامل ]راہنمائی ہے۔ [ البقرة 2 ]
اسی طرح فرمایا: إن هذا القرآن يهدي للتي هي أقوم
یعنی:بلاشبہ یہ قرآن اُسی کی طرف راہنمائی کرتا ہے، جو [ٹھوس اور ]مضبوط ہو۔ [ الإسراء 9 ]
واللہ اعلم .