سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا سيلان ميں مبتلا شخص كى نماز اور روزہ قبول ہے ؟

65868

تاریخ اشاعت : 10-02-2008

مشاہدات : 7123

سوال

كيا سيلان كے مرض ميں مبتلا شخص كا نماز اور روزہ قبول ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سيلان كا عمومى مرض، يعنى مرد اور عورت كى پيشاب والى جگہ سے پيپ وغيرہ كا رسنا يہ سيلان كا مرض كہلاتا ہے.

اس مرض كا روزہ پر كوئى اثر نہيں.

ليكن نماز كے متعلق عرض يہ ہے كہ: پيشاب اور پاخانہ والےمقام سے نكلنے والى ہر چيز مثلا: پيشاب، پاخانہ، ہوا، مذى، خون، پيپ وغيرہ سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 14321 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اس بنا پر سيلان كے مرض ميں مبتلا شخص سے نكلنے والى پيپ سے وضوء ختم ہو جاتا ہے، ليكن اگر يہ پيپ مسلسل نكلتى رہے، اور مريض اس پر كنٹرول نہ كر سكتا ہو تو اس كا حكم بھى سلسل البول كى بيمارى ميں مبتلا شخص كا ہو گا، يعنى جو شخص پيشاب كنٹرول نہيں كر سكتا، بلكہ پيشاب اس كے اختيار كے بغير ہى نكلتا رہتا ہے.

اس كا حكم يہ ہے كہ:

اگر اس مريض كو معلوم ہو كہ كچھ معين اوقات ميں خارج ہوتى ہے اور پھر اتنى مدت تك يہ مادہ خارج نہيں ہوتا كہ اس ميں طہارت كر كے نماز ادا ہو سكتى ہو، تو اس كو اس كے ركنے كا انتظار كرنا چاہيے، چاہے نماز باجماعت كا وقت جاتا رہے، پھر وہ اس مادہ كے ركنے كے وقت ميں وضوء كر كے وقت كے اندر ہى نماز ادا كر لے.

ليكن اگر وہ مسلسل ہى خارج ہو اور كسى بھى وقت نہ ركے تو مريض كو اپنى شرمگاہ پر كپڑا وغيرہ يا پھر نيپى لگانى چاہيے جو مادہ كو پھيلنے سے روكے، اور اس كا بدن اور لباس پليد نہ ہو، اور نماز كا وقت ہونے پر وہ ہر نماز كے ليے وضوء كر كے نماز ادا كر لے، اگر وضوء كے بعد كچھ خارج ہو تو وہ نقصان دہ نہيں، چاہے دوران نماز ہى خارج ہو جائے.

اور وہ اس وضوء كے ساتھ اس فرضى نماز كا وقت نكلنے تك نوافل بھى ادا كر سكتا ہے.

آپ سوال نمبر ( 22843 ) اور ( 39494 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

يہ تو اس صورت ميں ہے ... كہ جب سوال كرنے والے كا سوال يہ ہو كہ: كيا اس پيپ كے مسلسل نكلنے كى صورت ميں نماز اور روزہ صحيح ہے ؟

ليكن اگر اس كا مقصد يہ ہو كہ اس نے فحش كام كا زنا كا ارتكاب كيا ہے ( كيونكہ سيلان كا مرض غالب طور پر حرام تعلقات قائم كرنے سے پيدا ہوتا ہے ) تو اسے يہ علم ہونا چاہيے كہ جو شخص اللہ تعالى كى جانب رجوع كرتا ہوا اس كے سامنے توبہ كرتا ہے، اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كر كے اس كے گناہ معاف كر ديتا ہے، اور پھر توبہ كرنے والا بالكل ايسے ہى ہے جيسے كسى شخص كے گناہ نہ ہوں، انسان نے جس قدر بھى گناہ كر ليے ہوں، اور پھر وہ اللہ تعالى كے سامنے سچى اور پكى توبہ كر كے اپنے كيے پر نادم ہو تو اللہ تعالى كو بخشنے والا رحم كرنے والا پائيگا:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

كہہ ديجئے: اے ميرے وہ بندو جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم كيا ہے، تم اللہ تعالى كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ، يقينا اللہ تعالى سب گناہ معاف كر دينے والا ہے، بيشك وہ بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الزمر ( 53 ).

امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے، وہ كہتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" اللہ تبارك و تعالى كا فرمان ہے: اے ابن آدم اگر تيرے گناہ آسمان كے بادلوں تك بھى پہنچ جائيں، اور پھر تو مجھ سے بخشش طلب كرے تو ميں تجھے بخش دونگا، اور مجھے كوئى پرواہ نہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3540 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

" عنان السماء " يہ بادل ہيں، اور آسمان كى طرف اضافت بلندى اور ارتفاع كى تصوير كشى كے ليے ہے، كہ گناہ آسمان كى بلندى تك پہنچ رہے ہوں. انتہى

ماخوذ از: تحفۃ الاحوذى.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 9393 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب