الحمد للہ.
مسلمان اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے، اس طرح انسان اللہ تعالی کے لیے اپنی عبدیت کا اظہار کرتا ہے، در حقیقت اس اظہارِ عبدیت کا حکم اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں دیا ہے، اور اپنے رسولوں کی بعثت بھی اسی اظہار عبدیت کا طریقہ سکھانے کے لیے فرمائی ، جیسے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بالکل واضح فرمایا ہے کہ:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
ترجمہ: یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا تا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ [النحل: 36]
عربی زبان میں عبدیت کے لیے “عبودیت” کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جو کہ “تعبید” سے ماخوذ ہے، اور عربی زبان میں ” عَبَّدتُّ الطَّرِيْقَ” اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص کسی ناہموار جگہ پر ہموار راستہ بنا دے، یعنی کسی غیر مناسب جگہ کو اپنے لیے مناسب انداز میں ڈھال دے۔ تو انسان کی اللہ تعالی کی عبدیت یا بندگی کے لیے دو مفہوم ہیں، ایک عام اور دوسرا خاص مفہوم ہے۔ چنانچہ اگر اس سے مراد ہموار اور حسب منشا راستہ مراد لیا جائے تو اس سے عام مفہوم مراد ہو گا لہذا اس میں عالم علوی اور سفلی کی تمام عاقل و غیر عاقل، خشک اور تر، متحرک اور ساکن، کافر اور مومن، نیک اور بد سب مخلوقات شامل ہوں گی؛ کیونکہ تمام کی تمام مخلوقات اللہ تعالی کی تابع فرمان ہیں، اسی کی دی ہوئی رہنمائی میں آگے بڑھتی ہیں، اور اللہ تعالی ہی ان کے تمام امور چلا رہا ہے، اور اللہ تعالی کی بنائی ہوئی حدود سے یہ چیزیں تجاوز نہیں کرتیں۔
اور اگر عبادت گزار بندہ مراد لیا جائے جو اللہ تعالی کا فرمانبردار بھی ہو تو اس میں صرف اہل ایمان شامل ہوں گے کافر شامل نہیں ہوں گے؛ کیونکہ اہل ایمان ہی اللہ تعالی کے حقیقی معنوں میں بندے ہیں جنہوں نے اظہار عبدیت کیا ہے اور اللہ تعالی کو ربوبیت، الوہیت، اور اسما و صفات میں یکتا سمجھتے ہیں، یہی اہل ایمان ہی اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے، جیسے کہ اللہ تعالی نے ابلیس کے واقعہ میں بتلایا ہے کہ:
رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الأَرْضِ وَلأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ(39) إِلا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ(40) قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ(41) إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ
ترجمہ: شیطان بولا : پروردگار! چونکہ تو نے مجھے بہکا دیا ہے تو اب میں بھی دھرتی میں لوگوں کو (ان کے گناہ) [٢١] خوشنما کر کے دکھاؤں گا اور ان سب کو بہکا کر چھوڑوں گا ۔ [39] الا کہ تیرے چند مخلص بندے (بچ جائیں تو اور بات ہے) [40] اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ وہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔ [41] میرے (حقیقی) بندوں پر تو تیرا کچھ زور نہ چل سکے گا۔ تیرا زور صرف ان گمراہوں پر چلے گا جو تیری پیروی کریں گے ۔ [الحجر: 39 – 42]
اور جس عبادت کو کرنے کا اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے وہ: ہر ایسے ظاہری و باطنی اقوال و افعال کا نام ہے جنہیں اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور ان سے راضی ہوتا ہے، اور اِن اعمال سے متصادم کاموں سے بالکل لا تعلق ہو جانا عبادت کہلاتا ہے۔ عبادت کی اس تعریف میں کلمہ شہادت کی دونوں گواہیاں، نماز، حج، روزہ، جہاد فی سبیل اللہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، رسولوں پر ایمان اور آخرت کے دن پر ایمان شامل ہو جاتا ہے، ایسی عبادت میں نیت اور اخلاص ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، یعنی عبادت کرتے ہوئے عبادت گزار کا مقصد رضائے الہی کی تلاش ہو، آخرت میں کامیابی چاہتا ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى (17) الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى (18) وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى (19) إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى (20) وَلَسَوْفَ يَرْضَى
ترجمہ: متقی ترین شخص کو جہنم سے بچایا جائے گا [17] جو تزکیہ نفس کے لیے اپنا مال ادا کرتا ہے [18] اس پر کسی کا کوئی احسان نہ تھا جس کا وہ بدلہ چکاتا۔ [19] بلکہ وہ صرف اپنے اعلی رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ [20]اور جلد ہی وہ اس سے راضی ہو جائے گا۔ [اللیل: 17 – 21 ]
لہذا اخلاص اور صدق دل کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں، اس لیے اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل میں انسان اپنی پوری کوشش کرے، اور جن چیزوں سے اللہ تعالی نے روکا ہے ان سے رک جائے، اور اللہ تعالی سے ملاقات کی تیاری کرتے ہوئے اپنے آپ کو کوتاہی، سستی ، ناتوانی سے دور رکھے، اور ہوس پرستی میں مبتلا نہ ہونے دے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور سچے لوگوں کے ہمراہ رہو۔ [التوبہ: 119]
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور پیروی بھی ضروری ہے، اس لیے عبادت گزار پر لازم ہے کہ اسی طریقے سے اللہ تعالی کی عبادت کرے جیسے اللہ تعالی نے شریعت میں طریقہ بتلایا ہے، اپنی خواہشات کے مطابق نہیں، نہ ہی مخلوق کی چاہت کے مطابق، اور نہ ہی خود ساختہ طریقے کے مطابق عبادت کرے، اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور پیروی کا یہی مطلب ہے، چنانچہ اخلاص، صدق دل اور اتباعِ سنت کا ہونا ضروری ہے۔ جب یہ چیزیں ہمارے لیے واضح ہو گئیں تو ہمیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ ان تین چیزوں سے جو بھی چیز متصادم ہو گی وہ لوگوں کی بندگی میں آئے گی، لہذا ریا کاری لوگوں کی بندگی ہے، شرک اکبر لوگوں کی بندگی ہے، لوگوں کی باتوں میں آ کر اللہ تعالی کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالی کو ناراض کرنا لوگوں کی بندگی ہے، جو شخص بھی اللہ تعالی کی اطاعت گزاری کو چھوڑ کر ذاتی ہوس پرستی مقدم رکھے تو یہ شخص اللہ تعالی کی بندگی سے خارج ہو گیا، صحیح طریقے کو چھوڑ بیٹھا ہے، اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دینار کا بندہ ہلاک ہو گیا، درہم کا بندہ ہلاک ہو گیا، چادر کا بندہ ہلاک ہو گیا، اور موٹی چادر کا بندہ ہلاک ہو گیا، اگر اسے دنیا دی جائے تو راضی ہوتا ہے، اور اگر نہ دی جائے تو ناراض ہوتا ہے، وہ ہلاک ہو اور ذلیل ہو، اور جب اسے کانٹا چبھے تو نکالا نہ جائے۔)
اللہ کی بندگی اللہ سے محبت، خوف اور امید تینوں کو ایک جگہ جمع کر دیتی ہے، اس لیے بندہ اپنے رب سے محبت کرتا ہے، اور اس کی سزا سے ڈرتا ہے، اللہ کی رحمت کی امید رکھتا ہے، اور ثواب چاہتا ہے، تو جب تک یہ تینوں چیزیں یک جا جمع نہ ہوں تو اس وقت تک اللہ کی بندگی مکمل نہیں ہو سکتی۔
اللہ کی بندگی انسان کے لیے شرف کی بات ہے، یہ کوئی حقارت والی بات نہیں ہے، جیسے کہ شاعر نے کہا:
{وَمِمَّا زَادَنِيْ شَرَفًا وَتَيْهًا وَكِدْتُّ بِأَخَمُصِيْ أَطَأ الثُّرَيَّا}
میرے شرف و منزلت میں اضافہ ہو گیا اور میں اپنے قدموں سے ثریا کو روندنے لگا
{ دُخُوْلِيْ تَحْتَ قَوْلِكَ يَا عِبَادِيْ وَأَنْ صَيَّرْتَ أَحْمَدَ لِيْ نَبِيًّا }
جب میں تیرے فرمان: “یا عبادی” میں داخل ہوا اور تو نے احمد کو میرا نبی بنایا۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ ہمیں اپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے، اور ہمارے نبی پر درود و سلام نازل فرمائے۔ آمین