ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

اچھی بات نشر کرنے کیلئے اس نے ایک حدیث ای میل کی ، بعد میں علم ہوا کہ وہ حدیث موضوع ہے، اب کیا کرے؟

66273

تاریخ اشاعت : 23-12-2014

مشاہدات : 14465

سوال

سوال: مجھے بذریعہ ای میل ایک پیغام موصول ہوا، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک حدیث تھی، اور معمول کے مطابق مجھے یہ پیغام بھیجنے والے بھائی نے سب کے فائدے کیلئے اسے آگے نشر کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہوا تھا، تم میں نے بہت سے لوگوں کو وہ حدیث ارسال کی، اس کے بعد مجھے علم ہوا کہ وہ حدیث تو خود ساختہ تھی، تو مجھے میرےایک ہمدم نے کہا کہ میں جن لوگوں کو یہ حدیث ارسال کر چکا ہوں انہیں ایک اور پیغام ارسال کروں جس میں اس حدیث کے خود ساختہ ہونے کی وضاحت ہو، اب مسئلہ یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم میں نے کس کس شخص کویہ حدیث ارسال کی تھی۔
تو کیا مجھے گناہ ملے گا؟ یا میں استغفار کروں؟ واضح رہے کہ حدیث میں کوئی شرعی حکم نہیں تھا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طواف کے دوران ایک دیہاتی آدمی سے متعلقہ قصہ ہے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

شرعی احکامات ، پندو نصائح، اور مفید واقعات پر مشتمل اصلاحی پیغامات  ارسال کرنا  نیکی کا بہت بڑا  کام ہے، کیونکہ  وصول کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ  ہوتی ہے، جبکہ اسے ارسال کرنا بہت آسان ہوتا ہے، لیکن اس کیلئے پیغام  میں موجود اصلاحی گفتگو یا احادیث  کی صحت کے بارے میں اطمینان کر لینا ضروری ہے؛ کیونکہ کچھ لوگ اس نعمت کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، اور بنا تحقیق  کے موضوع احادیث  اور جھوٹے واقعات بھی نشر کر دیتے ہیں۔

چنانچہ کسی  شخص کو قطعاً اجازت نہیں ہے کہ وہ کہے  "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا "یا اسی طرح کے دیگر الفاظ کسی بات کیلئے استعمال کرے جو خود ساختہ اور جھوٹ پر مبنی ہوں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے کہ:(جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے) بخاری: (1291) مسلم: (933)

اسی طرح  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (جو شخص میری طرف منسوب ایسی حدیث آگے بیان کرے جو واضح جھوٹ  لگتی ہو، تو وہ دو بڑے جھوٹوں میں سے ایک ہے) امام مسلم نے اسے اپنی کتاب صحیح مسلم کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے۔

نووی رحمہ اللہ "شرح مسلم" (1/71) میں کہتے ہیں:
"جس شخص کو خود ساختہ حدیث کے بارے میں علم ہو یا ظن غالب ہی ہو تو اس کیلئے ایسی روایت آگے بیان کرنا حرام ہے، چنانچہ جو شخص کسی حدیث کے بارے میں جانتا ہو یا اسے ظن غالب  ہو کہ یہ حدیث خود ساختہ ہے، لیکن پھر بھی وہ یہ روایت اسکی حقیقت بیان کئے بغیر نشر کرتا ہے تو  وہ بھی اس وعید میں شامل ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ باندھنے والوں میں شمار ہوگا، اس  کی دلیل گزشتہ  حدیث میں ہے کہ: (جو شخص میری طرف منسوب ایسی حدیث بیان کرے جو واضح جھوٹ  لگتی ہو، تو وہ دو بڑے جھوٹوں میں سے ایک ہے)
اسی لئے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ: جو شخص بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسوب حدیث بیان کرنا چاہے تو وہ پہلے تاکید کر لے، اگر صحیح  یا حسن ہو تو  واضح لفظوں میں کہہ دے: مثلاً: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسے کیا" اور اگر حدیث ضعیف ہے تو  واضح لفظوں میں یہ نہ کہے کہ: مثلاً: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسے  فرمایا، یا ایسے عمل کیا، یا اسکا حکم فرمایا، یا اس سے منع کیا" بلکہ یہ کہے کہ: "کہا جاتا ہے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ بات منسوب ہے، یا یہ کہے کہ میں نے سنا ہے" یا اسی طرح کے دیگر محتاط الفاظ استعمال کرے "انتہی

امام نووی رحمہ اللہ  اسی طرح ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر جھوٹ باندھتے ہوئے کوئی شرعی حکم بیان کیا جائے یا ترغیب و ترہیب ، یا نصیحت کی شکل میں فضائل وغیرہ بیان کئے جائیں، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، ہر صورت میں یہ کبیرہ گناہ ہےاوراہلِ علم  کے نزدیک قبیح ترین  عمل ہے برخلاف کرّامی بدعتی فرقے کے  ان کےہاں یہ خود ساختہ نظریہ ہے کہ ترغیب و ترہیب  کیلئے احادیث گھڑنا جائز ہے، اور انہی کے پیچھے لگ کر اپنے آپ کو زہد و ورع سے منسلک کرنے والے کچھ جاہل بھی  اسی بات کے قائل ہیں" انتہی

لہذا آپکی طرف سے موضوع حدیث نشر کرنے  کا کفارہ یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی سے استغفار کریں، اور ظن غالب کے مطابق جس جس کو آپ نے یہ حدیث ارسال کی ہو سب کو آپ پیغام بھیجیں کہ یہ حدیث موضوع ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف اسکی نسبت درست نہیں ہے، اس لئے آپ اتنا ضرور کریں، کیونکہ آپ اس وقت یہی کر سکتے ہو، اور اللہ تعالی کسی کو اسکی وسعت سے بڑھ کر کسی چیز کا مکلف نہیں ٹھہراتا۔

اور آئندہ کیلئے لازمی طور پرکسی بھی حدیث کو نشر کرنے سے پہلے یہ ضرور جان لیں کہ اسکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت صحیح ہے یا نہیں ۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب