منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اگر حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت روزہ ركھنے ميں مشقت محسوس كرے تو اس كے ليے روزہ نہ ركھنا افضل ہے

سوال

كيا حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كے ليے روزہ چھوڑنا افضل ہے يا كہ اس كے ليے روزہ ركھنا اور مشقت برداشت كرنا افضل ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جو شخص روزے كى مشروعيت ميں تامل اور غور كرتا ہے تو ديكھتا ہے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے روزے كو آسان مشروع كيا ہے، اور اس ميں آسانى اور سہولت اللہ تعالى كو محبوب ہے، اسى ليے اللہ سبحانہ وتعالى نے روزے كى آيات ميں فرمايا:

اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى چاہتا ہے، اور تمہيں مشكل ميں نہيں ڈالنا چاہتا البقرۃ ( 185 ).

اور جب روزے دار پر اتنى زيادہ مشقت ہو جائے كہ اسے نقصان پہنچنے كا انديشہ ہو تو اس وقت اس كے ليے روزہ ركھنا حرام ہے، اور اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس مسافر كے متعلق جس نے شديد مشقت كى حالت ميں روزہ ركھا ہوا تھا فرمايا:

" سفر ميں روزہ ركھنا كوئى نيكى نہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1946 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1115)

اور جب كچھ صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين نے مشقت كے ساتھ سفر ميں روزہ ركھا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بھى فرمايا:

" يہى نافرمان ہيں، يہى نافرمان ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1114 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" يہ روزے سے ضرر اور نقصان پہنچنے والے پر محمول ہے " انتہى

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ثابت ہے كہ انہوں نے فرمايا:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كسى بھى دو معاملوں ميں اختيار ديا جاتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان دو معاملوں ميں سے آسان اور سہل كو اختيار كرتے، جب وہ گناہ نہ ہوتا، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں سے اس سے سب سے زيادہ دور ہونے والے ہوتے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3560 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2327 )

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس ميں آسان اور سہل معاملہ كو لينے اور اس پر عمل كرنے كا استحباب پايا جاتا ہے، جبكہ وہ حرام يا مكروہ نہ ہو. اھـ

امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بلا شبہ جس طرح اللہ تعالى يہ ناپسند كرتا ہے كہ اس كى نافرمانى نہ كى جائے اسى طرح يہ بھى پسند فرماتا ہے كہ اس كى رخصت پرعمل كيا جائے"

مسند احمد حديث نمبر ( 5832 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 564 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

تو يہ دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ مكلف پر عبادت جتنى آسان ہو گى وہ مقاصد شريعہ كے اتنى ہى زيادہ قريب ہو گى.

دوم:

علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ جس مريض پر روزہ ركھنا مشقت ہو اس كے ليے روزہ چھوڑنا افضل ہے، بلكہ قرطبى رحمہ اللہ تعالى تو كہتے ہيں:

" اسكے ليے روزہ نہ ركھنا مستحب ہے، اور جاہل ہى روزہ ركھتا ہے. اھـ

ديكھيں: تفسير القرطبى ( 2 / 276 ).

اور " المغنى " ميں ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى نے اس مريض كے ليے روزہ ركھنا مكروہ قرار ديا ہے جس كے ليے روزہ ركھنے ميں مشقت ہو.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 4 / 404 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " الشرح الممتع " ميں كہتے ہيں:

اس سے ہم بعض مجتھدين اور مريضوں كى غلطى كا علم ہوتا ہے جن پر روزہ ركھنا مشقت ہے، اور ہو سكتا ہے انہيں نقصان بھى دے، ليكن وہ روزہ چھوڑنے سے انكار كرتے ہيں، تو ہم يہ كہينگے:

يہ لوگ غلطى پر ہيں كہ انہوں نے اللہ تعالى كا كرم قبول نہيں كيا، اور انہوں نے اللہ تعالى كى جانب سے دى گئى رخصت قبول نہ كر كے اپنے آپ كو تكليف دى ہے، حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اورتم اپنے نفسوں كو قتل نہ كرو النساء ( 29 ). انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 352 ).

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 1319 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اس سے ظاہر ہوا كہ حاملہ عورت اور اسى طرح دودھ پلانے والى پر جب روزہ مشقت كا باعث ہو تو اس كے ليے روزہ نہ ركھنا افضل ہے، بلكہ علماء كرام نے تو صراحتا بيان كيا ہے كہ جب عورت كے پيٹ ميں يا دودھ پيتے بچے كے ليے روزہ نقصان كا باعث بنے تو اس كا روزہ ركھنا حرام ہے.

جصاص رحمہ اللہ تعالى نے " احكام القرآن " ميں كہا ہے:

حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كا روزہ ركھنا انہيں يا ان كے بچے كو نقصان دينے سے خالى نہيں، ان ميں سے جو بھى ہو اس كے ليے روزہ نہ ركھنا افضل اور بہتر ہے، اور ان دونوں كے ليے روزہ ركھنا ممنوع ہے.

اور اگر روزہ نہ تو انہيں نقصان دے اور نہ ہى بچے كے ليے ضرر كا باعث ہو تو انہيں روزہ ركھنا ہو گا، اور ان كے ليے روزہ چھوڑنا جائز نہيں.

ديكھيں: الاحكام القرآن ( 1 / 252 ).

اور ايك دوسرى جگہ پر ان كا كہنا ہے:

مريض شخص اور حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت، اور ہر وہ شخص جس كے متعلق خدشہ ہو كہ روزہ اس كے ليے ضرر كا باعث ہے، يا بچے كو ضرر كا انديشہ ہو تو اسے روزہ نہيں ركھنا چاہيے؛ كيونكہ روزہ كے ضرر اور مشقت كا احتمال تنگى اور مشكل كى ايك قسم ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے سے ہميں تنگى اور مشكل ميں ڈالنے كى نفى كى ہے، اور يہ اسى كى نظير ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بيان كيا گيا ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب دو معاملوں ميں اختيار ديا جاتا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم ان ميں سے آسان اور سہل كو اختيار كرتے تھے.

ديكھيں: احكام القرآن ( 1 / 307 ).

اور ابن مفلح رحمہ اللہ تعالى " الفروع " ميں كہتے ہيں:

حاملہ عورت اور دودھ پلانے والى عورت كو جب اپنے آپ يا بچے پر ضرر كا خوف ہو تو اس كے ليے روزہ ركھنا مكروہ ہے.....

ديكھيں: الفروع ( 3 / 35 ).

اور ابن عقيل رحمہ اللہ تعالى نے ذكر كيا ہے كہ:

اگر حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كو اپنے حمل يا بچے كو دودھ پلانے ميں ضرر كا خدشہ ہو تو اس كے ليے روزہ ركھنا حلال نہيں، بلكہ وہ فديہ ادا كرے گى، اور اگر كوئى خطرہ نہ ہو تو اس كے ليے روزہ چھوڑنا حلال نہيں.

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" حاملہ اور دودھ پلانے والى عورت كا حكم مريض كا حكم ہى ہے، جب ان دونوں كے ليے روزہ ركھنے ميں مشقت ہو تو ان دونوں كے ليے روزہ چھوڑنا مشروع ہے "

ديكھيں: تحفۃ الاخوان باجوبۃ مھمۃ تتعلق باركان الاسلام ( 171 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب