منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

مسلمانوں كي موجودگي كےباوجود كفار سےخريداري كرنا

سوال

مسلمانوں كا آپس ميں تعاون ترك كردينا وہ اس طرح كہ مسلمان كسي مسلمان سے خريدنا پسند نہيں كرتا بلكہ كفار كي دوكانوں سے خريداري كرنا پسند كرتا ہے، آيا يہ حلال ہے كہ حرام؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اصل تو جواز ہے كہ مسلمان اپني ضرورت كي وہ اشياء جواللہ تعالي نے اس كےليے حلال قرار دي ہيں مسلمان سےخريدے يا كافر سے جائز ہے، اور نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےبھي يھوديوں سے خريداري كي تھي.

ليكن جب مسلمان اپنےمسلمان بھائي سے بغير كسي سبب يعني دھوكہ اور ريٹ ميں زيادتي اور سامان ردي ہونے وغيرہ كےبغير ہي خريداري ترك كركے كفار سے خريداري كرنا محبوب سمجھے اور اس كي رغبت ركھے اور بغير كسي سبب كے ہي كافر سے خريداري كو مسلمان پر ترجيح دے تو يہ حرام ہے كيونكہ اس ميں كفار سےموالاۃ و دوستي اور ان سے راضي ہونا اور ان سےمحبت كا اظہار، اور مسلمان تاجروں كےساتھ كساد بازاري اور انہيں نقصان ديناہے اور جب مسلمان اس كي عادت ہي بنا لے تو اس ميں مسلمانوں سےخريداري كا عدم رواج ہوگا، ليكن اگر مسلمان سےخريداري نہ كرنے كےكچھ اسباب ہوں جيسا كہ اوپر بيان ہوچكا ہے تو وہ اپنےمسلمان بھائي كو نصيحت كرے جواسے ان عيوب كودور كرے اگر تو وہ نصيحت قبول كرلے الحمد للہ وگرنہ وہ اس سے خريداري كرنا ترك كركے كسي اور سے خريداري كرے اگرچہ كافر ہي كيوں نہ جو اپنےمعاملات ميں سچائي اختيار كرتا اور منافع كا احسن طريقہ سے تبادلہ كرتا ہو. اھ  .

ماخذ: ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 18 )