اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

سلام کرتے ہوئے "سلام علیکم" کہنا درست ہے؟

سوال

بہت سے مسلمان آپس میں سلام کہتے ہوئے "سلام علیکم" کہتے ہیں، تو کیا یہ کہنا جائز ہے؟ اور اگر یہ صحیح نہیں ہے تو پھر کیا ایسے سلام کرنے والے کو سلام کرنے کا ثواب ملے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سلام کہتے ہوئے "سلام علیکم" کہنا یا "سلام علیک" کہنا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے کہ اہل جنت کو فرشتے سلام کرتے ہوئے "سلام علیکم" ہی کہیں گے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالْمَلائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
ترجمہ: فرشتے انہیں ہر دروازے سے داخل ہو کر کہیں گے: سلام علیکم، تمہارے صبر کرنے کی وجہ سے ۔ اب تمہارے لیے آخرت کا ٹھکانا بہت ہی اچھا ہے۔ [الرعد: 23 - 24]

اسی طرح فرمایا: وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ترجمہ: اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف چلایا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اور اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے تو اس کے داروغے انہیں کہیں گے : سلام علیکم، خوش ہو جاؤ اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہوجاؤ [الزمر: 73]

انہی لفظوں میں سلام قرآن کریم کی اس آیت میں بھی آیا ہے: الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ 
ترجمہ: پرہیز گار پاک سیرت لوگوں کی روح فرشتے قبض کرنے آتے ہیں تو کہتے ہیں: سلام علیکم، تم جو اچھے عمل کرتے رہے اس کے صلے میں جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ [النحل: 32]

اسی طرح: وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلامٌ عَلَيْكُمْ لا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ
ترجمہ: اور جب کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں : ’’ہمارے لئے ہمارے اعمال میں اور تمہارے لئے تمہارے۔ سلام علیکم! ہم جاہلوں سے تعلق نہیں رکھنا چاہتے‘‘ [القصص: 55]

ایک اور آیت میں بھی فرمایا: وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ 
ترجمہ: اور جب آپ کے پاس ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے لوگ آئیں تو آپ انہیں کہیں: سلام علیکم۔ تمہارے پروردگار نے اپنے آپ پر رحمت کو بایں صورت لازم کر لیا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص لاعلمی سے کوئی برا کام کر بیٹھے اور پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور اپنی اصلاح کر لے تو یقیناً وہ معاف کر دینے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔[الانعام: 54]

اسی طرح ابن حبان رحمہ اللہ نے صحیح ابن حبان: (493) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزرا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، اس شخص نے گزرتے ہوئے کہا: "سلام علیکم" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دس نیکیاں) پھر ایک اور شخص نے گزرتے ہوئے کہا: "سلام علیکم ورحمۃ اللہ" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیس نیکیاں) پھر ایک اور شخص گزرا تو اس نے کہا: "سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تیس نیکیاں)۔ اب ایک شخص اس مجلس سے اٹھ کر چلا گیا لیکن اس نے سلام نہیں کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لگتا ہے تمہارا ساتھی سلام کرنا بھول گیا ہے، جب تم میں سے کوئی مجلس میں آئے تو سلام کرے، پھر اگر بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے ، اور اگر جانا چاہے تو تب بھی سلام کرے؛ کیونکہ پہلا سلام آخری سلام سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ ) [یعنی دونوں یکساں طور پر کرنے چاہییں۔ مترجم] اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح الترغیب و الترھیب میں حسن قرار دیا ہے۔ (2712)

تو مذکورہ دلائل اور دیگر نصوص سے یہ واضح ہو گیا کہ سلام کرتے ہوئے صرف "سلام علیکم" کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے، پھر اس انداز سے سلام کہنے پر اجر بھی ملے گا، اور ایسے سلام کا جواب بھی دینا لازم ہے۔

البتہ علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ "السلام علیکم" کہنا افضل ہے یا "سلام علیکم" یا دونوں ہی یکساں درجہ رکھتے ہیں۔

علامہ مرداوی رحمہ اللہ "الإنصاف" (2/563) میں کہتے ہیں:
"جب کوئی کسی زندہ شخص کو سلام کہے تو صحیح [حنبلی] موقف یہ ہے کہ: سلام یا السلام دونوں طرح کہہ سکتا ہے، صاحب فروع نے "سلام "کو افضل قرار دیتے ہوئے کہا کہ: متعدد اہل علم کا یہی موقف ہے۔

پھر انہوں نے امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ السلام علیکم کہنا سلام علیکم کہنے سے افضل ہے، جبکہ ابن عقیل حنبلی رحمہ اللہ سے یہ نقل کیا کہ سلام علیکم کہنا السلام علیکم کہنے سے افضل ہے۔ " ختم شد

علامہ نووی رحمہ اللہ "الأذكار" (صفحہ: 356-358) میں کہتے ہیں:
"سلام کرتے ہوئے افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والا: "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کہے، چنانچہ اگر کوئی اکیلا بھی کیوں نہ تو تب بھی السلام علیکم ہی کہے، چنانچہ سلام کا جواب دینے والا کہے گا: "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" ۔۔۔ ہمارے شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: اگر سلام کرنے والا صرف "السلام علیکم" کہتا ہے تو اس سے سلام ہو جائے گا، اور اگر سلام کرتے ہوئے صرف "السلام علیک" کہے یا "سلام علیک" کہتے تو تب بھی سلام ہو جائے گا۔

جبکہ سلام کا جواب کم از کم یہ ہے کہ: "وعلیک السلام" یا "وعلیکم السلام" کہے، تاہم اگر شروع سے واؤ حذف کر کے "علیکم السلام" کہتا ہے تو تب بھی سلام کے جواب کے لیے کافی ہو گا۔۔۔

اور اگر سلام کرنے والا شخص "سلام علیکم" یا "السلام علیکم " کہے تو دونوں صورتوں میں جواب دینے والا : "سلام علیکم" یا پھر "السلام علیکم" بھی کہہ سکتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا ‌سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ
مفہوم: جب فرشتے ابراہیم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: سلام، تو جواب میں ابراہیم نے کہا: سلام، میں نے تمہیں پہچانا نہیں۔[الذاریات: 25]

ہمارے شافعی فقہائے کرام میں سے امام ابو الحسن الواحدی کہتے ہیں: آپ کو سلام علیکم یا السلام علیکم دونوں میں سے کچھ بھی کہنے کا اختیار ہے۔

میرا [یعنی: علامہ نووی رحمہ اللہ ] موقف یہ ہے کہ: السلام علیکم کہنا بہتر ہے۔" مختصراً اقتباس مکمل ہوا

دوم:

سلام کرتے ہوئے علیک السلام یا علیکم السلام کہنا مکروہ ہے؛ کیونکہ اس طرح مردوں کو سلام پیش کیا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حوالے سے رہنمائی فرمائی ہے۔

چنانچہ سنن ابو داود: (5209) اور ترمذی: (2722) میں سیدنا ابو جری ھجیمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ کہتے ہیں کہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور سلام کرتے ہوئے کہا: علیک السلام یا رسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم سلام کرتے ہوئے علیک السلام نہ کہو؛ کیونکہ علیک السلام کہہ کر مردوں کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اس حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (کیونکہ علیک السلام کہہ کر مردوں کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔) کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت شاعروں کی یہ عادت تھی کہ وہ فوت شدگان کا تذکرہ کرتے ہوئے ان لفظوں میں سلام پڑھا کرتے تھے، وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فوت شدگان پر سلام پڑھنے کا بھی وہی طریقہ ہے جیسے آپ زندہ لوگوں کو سلام کیا کرتے تھے، چنانچہ آپ دونوں کے لیے کہتے تھے: السلام علیکم۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے:
سلام کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کرنے والے کا علیک السلام کہنا اچھا نہیں لگتا تھا، جیسے کہ سیدنا ابو جری ھجیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور سلام کرتے ہوئے کہا: "علیک السلام یا رسول اللہ" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم سلام کرتے ہوئے علیک السلام نہ کہو؛ کیونکہ علیک السلام کہہ کر مردوں کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔) یہ حدیث صحیح ہے۔

اس حدیث کو سمجھنے میں کچھ لوگوں کو غلطی لگی ، اور یہ کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ فوت شدگان کا سلام اور یہ حدیث دونوں آپس میں متعارض ہیں؛ کیونکہ فوت شدگان کے سلام میں "السلام علیکم" یعنی السلام پہلے ہے، جبکہ ابو جری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں فوت شدگان کے لیے سلام "علیک السلام" ہے، انہیں غلطی یہ لگی کہ ابو جری رضی اللہ عنہ والی روایت کو انہوں نے شرعی سلام کا طریقہ سمجھا، حالانکہ وہ شرعی طریقے کا بیان نہیں ہے بلکہ شعرا اور عام لوگوں کی عادت ذکر کی ہے کہ لوگ فوت شدگان کو سلام پیش کرتے ہوئے سلام کا لفظ بعد میں لاتے ہیں، مثلاً: ایک شاعر کا کہنا ہے کہ:
{ عليكَ سلامُ الله قيسَ بن عاصمٍ ورحمته ما شاء أن يترحما }

قیس بن عاصم تم پر اللہ کی سلامتی ہو، اور اس کی رحمت ہو جب تک وہ رحمت کرنا چاہے۔

{ فما كان قيسٌ هُلْكُه هُلكَ واحدٍ ولكنّه بنيان قومٍ تهدّما }

قیس کی وفات محض کسی ایک فرد کی وفات نہیں بلکہ وہ تو پوری قوم کی عمارت تھی جو کہ گر گئی۔

تو اس شعر کے عربی الفاظ میں علیک پہلے اور سلام بعد میں ہے جو کہ ان کے ہاں فوت شدگان کو سلام پیش کرنے کا طریقہ ہے اور تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو اچھا نہیں سمجھا کہ انہیں فوت شدگان کے انداز سے سلام کیا جائے۔" ختم شد
"زاد المعاد" (2/383)

سوم:

کامل ترین سلام یہ ہے کہ: انسان السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے، یا سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے۔
اس کی دلیل صحیح ابن حبان اور اسی طرح ابو داود: (5195) اور ترمذی: (2689) کی روایت میں موجود ہے چنانچہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور سلام کیا: السلام علیکم، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سلام کا جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دس نیکیاں)، پھر ایک شخص آیا اور اس نے سلام کرتے ہوئے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سلام کا جواب دیا تو وہ بیٹھ گیا، پھر فرمایا: (بیس نیکیاں)، پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سلام کا جواب دیا، تو وہ بیٹھ گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تیس نیکیاں)۔ اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

جبکہ سلام میں { وَمَغْفِرَتُهُ} یا { وَرِضْوَانُهُ} کا اضافہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے "زاد المعاد" (2/381) میں اس کی وضاحت کی ہے اور البانی رحمہ اللہ نے ضعیف ابو داود (5196) میں تفصیل ذکر کی ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب