الحمد للہ.
فجر كى سنتوں كے بعد ليٹنا سنت ہے، امام بخارى رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:
" جب نماز فجر كى اذان سے مؤذن خاموش ہو جاتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز فجر سے قبل اور فجر ظاہر ہو جانے كے بعد اٹھ كر ہلكى سى دو ركعت ادا كرتے اور پھر اپنى دائيں جانب ليٹ جاتے حتى كہ مؤذن اقامت كے ليے آتا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 626 ).
اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے اس بھى مكمل روايت بيان كى ہے جس كے الفاظ يہ ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز عشاء جسے لوگ عتمہ كہتے ہيں سے ليكر فجر تك گيارہ ركعت ادا كرتے تھے، ہر دو ركعت كے بعد سلام پھيرتے اور ايك ركعت كے ساتھ وتر پڑھتے، اور جب نماز فجر كى اذان سے مؤذن خاموش ہو جاتا اور فجر ظاہر ہو جاتى اور مؤذن آجاتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہلكى سى دو ركعت ادا كرتے اور اپنى دائيں كروٹ پر ليٹ جاتے حتى كہ مؤذن اقامت كے ليے آتا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 736 ).
اور بعض روايات ميں فجر كى اذان سے قبل ليٹنا وارد ہے، امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:
" صحيح اور صواب يہى ہے كہ فجر كى سنتوں كے بعد ليٹنا جائے، كيونكہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى فجر كى دو ركعت ادا كرے تو وہ اپنى دائيں كروٹ پر ليٹے "
اسے ابو داود اور ترمذى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے، جو كہ بخارى اور مسلم كى شرط پر ہے.
امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: يہ حديث حسن صحيح ہے. لہذا يہ حديث صحيح اور ليٹنے كے معاملہ ميں بالكل صريح اور واضح ہے.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى پہلے اور بعد ميں ليٹنے والى حديث اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى پہلے ليٹنے والى حديث اس كى مخالف نہيں، كيونكہ پہلے ليٹنے سے يہ لازم نہيں آتا كہ بعد نہ ليٹا جائے، اور ہو سكتا ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بعض اوقات بعد ميں ليٹنا ترك اس ليے كيا ہو كہ نہ ليٹنا بھى جائز ہے، ليكن يہ اس وقت ہے جب ترك ثابت ہو، اور يہ ثابت نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پہلے اور بعد ميں ليٹا كرتے تھے.
اور جب بعد ميں ليٹنے كے حكم والى حديث صحيح ہو اور اس كے ساتھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عمل والى روايات اس امر كے موافق ہيں تو پھر يہ متعين ہو جاتا ہے كہ بعد ميں ليٹا جائے، اور جب احاديث كے مابين جمع كرنا ممكن ہو تو پھر كسى ايك حديث كو رد كرنا جائز نہيں، اور دونوں ميں سے كسى ايك طريقہ سے ممكن ہے جن كى طرف ہم نے اشارہ كيا ہے، ايك طريقہ تو يہ ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پہلے اور بعد ميں ليٹے ہيں.
اور دوسرا يہ ہے: بعض اوقات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بعد ميں ليٹنا ترك كيا ہے تا كہ اس كا جواز ثابت ہو جائے. واللہ اعلم. انتہى
حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
بعض سلف رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں كہ گھر ميں ليٹنا جائز ہے، مسجد ميں نہيں، يہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا گيا ہے، اور ہمارے بعض مشائخ نے اسے اس طرح تقويت دى ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منقول نہيں كہ انہوں نے يہ فعل مسجد ميں كيا ہو، اور مسجد ميں جو شخص ايسا كرتا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما اسے كنكرى مارتے تھے.
اسے ابن ابى شيبہ نے روايت كيا ہے. اھـ
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے ليٹنے كے حكم كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:
صحيح وہ ہے جو شيخ الاسلام نے كہا ہے كہ جب انسان تھجد كى بنا پر تھكا ہوا ہو تو وہ اپنى دائيں كروٹ پر ليٹ كر كچھ دير آرام كر لے، يہ اس شرط پر ہے كہ اگر اس پر نيند كے غالب ہونے كا خدشہ نہ ہو، تا كہ نماز نہ رہ جائے، اور اگر يہ خدشہ ہو تو پھر وہ نہ سوئے. اھـ
ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 3 / 287 ).
اس ليٹنے ميں حكمت يہ ہے كہ رات كے قيام كى تھكاوٹ سے آرام كيا جا سكے، تا كہ وہ نماز فجر كے ليے نشيط ہو جائے، اور اس بنا پر بعض لوگ جو ايك منٹ سے بھى كم وقت ليٹتے ہيں جيسا كہ سوال ميں وارد ہے ايسا كرنے سے مقصد حاصل نہيں ہوتا، پھر يہ تو خلاف سنت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو نماز كى اقامت كے ليے مؤذن كے آنے تك ليٹے رہتے تھے.
واللہ اعلم .