اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نماز كى پابندى نہ كرنے اور بيوى كے حقوق ميں كوتاہى كرنے والے خاوند سے طلاق لينا

67940

تاریخ اشاعت : 27-06-2012

مشاہدات : 5024

سوال

ميرے ليے ايك نوجوان كا رشتہ آيا جس كى تعليم مجھ سے كم تھى اس نے ہائى سكول كى تعليم لے ركھى ہے اور ميں يونيورسٹى سے فارغ ہوں، اس ليے ميں نے يہ رشتہ رد كر ديا، ليكن بعد ميں اس نوجوان كى والدہ نے دعوى كيا كہ اس كے لڑكے نے انگلش ميں ڈپلومہ كر ركھا ہے، ليكن بعد ميں مجھے علم ہوا كہ وہ انگريزى كے بارہ ميں كچھ نہيں جانتا. اس نوجوان كى والدہ نے كہا كہ وہ تنخواہ چار ہزار ريال ماہانہ پر ملازم ہے، يہ تخواہ كافى ہے كيونكہ اس كا دادا اسے فليٹ تحفہ ميں دے رہا ہے، اس طرح ہمارى شادى ہوگئى ليكن بعد ميں مجھے علم ہوا كہ اس نوجوان پر تو بنك كا قرض ہے اور بنك اس كى ماہانہ تخواہ سے كٹوتى كر رہا ہے، مجھے وہ ماہانہ ايك ہزار ريال ديتا، اور تقريبا تين ماہ سے اس نے ملازمت بھى چھوڑ دى ہے اور دوسرا كام تلاش كر رہا ہے.
اس كے دادا نے جو فليٹ ديا ہے اب تك ہم اس ميں بھى منتقل نہيں ہوئے، حالانكہ ہمارى شادى كو ايك سال اور چار ماہ گزر چكے ہيں، اس كا سبب يہ ہے كہ وہ ميرے اخراجات برداشت نہيں كر سكتا اور اپنے گھر والوں كے ساتھ ہى رہتا ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ نمازوں ميں بھى سستى و كوتاہى كا مرتكب ہوتا ہے، جب ميں كہوں تو نماز ادا كر ليتا ہے، اور پھر بہت موٹا بھى ہے جو ميرے ليے لذت كے حصول ميں مانع ہے، اور پھر اپنى صفائى ستھرائى كا بھى خيال نہيںں كرتا، حتى كہ ميں اس سے نفرت كرنے لگى ہوں، برائے مہربانى مجھے كوئى حل بتائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شادى اللہ سبحانہ و تعالى كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى اور اللہ كى نعمتوں ميں سے ايك نعمت ہے، جس ميں خاوند اور بيوى كو انس و محبت حاصل ہوتى ہے اور وہ ايك دوسرے عفت و عصمت حاصل كرتے ہيں، اور نيك و صالح اولاد كا حصول ہوتا ہے جس سے زمين ميں اللہ كے منھج پر آبادى ہوتى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ كى نشانيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ اس نے تمہارے ليے تمہارى ہى جنس سے تمہاري بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و سكون پاؤ، اور اس نے تمہارے مابين محبت و الفت اور ہمدردى قائم كر دى، يقينا غوروفكر كرنے والوں كے اس ميں بہت سارى نشانياں ہيں الروم ( 21 ).

ان مقاصد كے حصول كے ليے شادى مشروع كى گئى ہے اس ليے اگر يہ مقاصد حاصل نہ ہوں تو پھر طلاق مشروع ہوتى ہے، تا كہ دوسرى ازدواجى زندگى كے ليے راہ تيار كى جا سكے جس ميں نكاح كے اہداف و مقاصد كا حصول ہو سكے.

آپ نے جن اسباب كا ذكر كيا ہے، ان كى بنا پر آپ كے ليے طلاق مانگنا مباح ہے.

حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى بغير كسى سبب كے طلاق كا مطالبہ كيا اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" بغير كسى سبب كے " يعنى بغير كسى ايسے سبب كے جس كى بنا پر عليحدگى كى ضرورت پڑے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عورت پر حسن معاشرت كرنا ضرورى ہے، اور اس پر واجب ہے كہ وہ اپنے خاوند كى اچھے طريقہ سے اطاعت و فرمانبردارى كرے، اور بغير كسى علت و سبب كے طلاق كا مطالبہ مت كرے.

اگر كوئى علت و سبب ہو تو پھر طلاق طلب كرنے ميں كوئى حرج نہيں مثلا: بيوى كے حق ميں خاوند بخل سے كام ليتا ہو، يا پھر بہت زيادہ معصيت و نافرمانى كرنے والا ہو يعنى نشہ وغيرہ كرتا ہو، يا پھر بہت زيادہ راتوں كو بيدار رہتا ہو اور بيوى كو چھوڑ ركھے، يا اس طرح كا كوئى اور سبب ہو تو يہ قابل قبول عذر ميں شامل ہوگا " انتہى

ماخوذ از: فتاوى الطلاق ( 264 ).

آپ نے جو اسباب بيان كيے ہيں ان كى بنا پر اگرچہ آپ كے ليے طلاق لينى مباح ہو جاتى ہے ليكن طلاق كا مطالبہ كرنے سے قبل آپ كو چند ايك امور كا خيال كرتے ہوئے طلاق لينے كے بارہ بہت زيادہ غور و فكر كرنى چاہيے، ذيل ميں ہم چند ايك امور پيش كرتے ہيں ان كا خيال ضرور كريں:

اول:

خاوند كى اصلاح كى اميد خاص كر جب آپ اپنے عليحدہ فليٹ ميں منتقل ہو جائيں تو ہو سكتا ہے وہ آپ كى طرف سے اسے دليرى دلانے كى بنا پر وہ نماز كى پابندى كرنے لگے، اور اللہ تعالى اس كے رزق ميں بھى وسعت كر دے، اور وہ آپ كو راضى ركھنے كى سعى و كوشش كرے، اور آپ جس اذيت سے دوچار ہيں اس سے چھٹكارا دلانے كى كوشش كرے.

تو اس طرح آپ كو خاوند كے ساتھ حسن سلوك كرنے پر اللہ كى جانب سے اجروثواب حاصل ہو، كہ آپ نے اس كى حالت تبديل كرنے ميں معاونت كى، اس ليے آپ اپنے آپ سے دريافت كريں، اور اپنے خاوند كے حال ميں غور و فكر كريں.

اگر آپ كو نظر آئے اور اميد ہو كہ وہ تبديل ہو جائيگا اور اس كى حالت ميں اصلاح پيدا ہو جائيگى تو پھر آپ صبر و تحمل سے كام ليں اور اللہ سے اجروثواب كى نيت ركھيں، اور يہ علم ميں ركھيں كہ صبر كا پھل اور نتيجہ كاميابى اور تنگى و مشكل سے چھٹكارا كى صورت ميں ہوتا ہے.

كتنى ہى عورتيں ہيں جنہوں نے اپنے خاوند كے برے اخلاق اور برے سلوك پر صبر و تحمل سے كام ليا تو اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے خاوندوں كى حالت بدل دى، اور وہ بہترين خاوند بن گئے، جو اپنى بيوى كے صبر و تحمل اور نيكى و احسان كى قدر كر كے اسے كبھى نہيں بھولتا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

نيكى اور بدى برابر نہيں ہوتى، برائى كو بھلائى سے دور كرو پھر وہى جس كے اور تمہارے درميان دشمنى و عداوت ہے ايسا ہو جائيگا كہ جيسے دلى دوست ہو

اور يہ بات انہيں كو نصيب ہوتى ہے جو صبر كريں اور اسے سوائے بڑے نصيبے والوں كے اور كوئى نہيں پا سكتا فصلت ( 34 - 35 ).

خاوند كى اصلاح كرنے ميں عورت كا بہت بڑا دخل ہے وہ اسے خير و بھلائى اور فلاح و كاميابى كى طرف لانے ميں كامياب ہو سكتى ہے ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اس كے ليے حكمت اور نرمى و شفقت اور اچھے اسلوب كو استعمال كرے، اور اسے پہلے اپنے خاوند كى دينى اصلاح كرنى چاہيے، اور پھر بدنى اور مادى اصلاح كى طرف جائے.

كيونكہ اگر خاوند كى دينى اصلاح ہو جائے تو پھر اللہ كے فضل و حكم سے سارے معاملات و امور ميں ہى سيدھا ہو جائيگا.

دوم:

آپ يہ مدنظر ركھيں كہ اگر طلاق ہو گئى تو آپ كى حالت كيا ہوگى، اس چيز پر غصہ كى حالت ميں يا پھر خاوند سے نفرت كى حالت ميں حكم نہيں لگايا جا سكتا، بلكہ اس كے ليے غور و فكر اور تدبر كى ضرورت ہے.

كيونكہ ايك عقلمند عورت ايك ايسے خاوند كے ساتھ زندگى گزرانے پر راضى ہو سكتى ہے جس ميں خير و شر اور برائى و نيكى پائى جاتى ہو، ليكن وہ طلاق يافتہ ہو كر زندگى نہيں بسر كر سكتى، كيونكہ طلاق كى صورت ميں اسے اكيلا پن اور پريشانى اور دوسرے خاوند كى تلاش جيسى مشكلات حاصل ہونگى، كيونكہ اس دور ميں تو بہت سارى عورتوں كى شادى كى عمر ڈھل چكى ہے اور ان كى شادى نہيں وہ شادى كى آس لگائے بيٹھى ہيں تو پھر ايك مطلقہ كا كيا حال ہوگا، كہ كنوارى كے ليے شادى مشكل ہو رہى مطلقہ كيسے كريگى.

ليكن اس ميں عورتيں مختلف ہيں، ہو سكتا ہے مطلقہ عورت اپنے دين و اخلاق اور خوبصورتى يا مال و نسب كى بنا پر مرغوب ہو.

سوم:

آپ كو كثرت كے ساتھ اللہ كے سامنے گريہ زارى كرنى چاہيے كہ وہ آپ كو رشد و ہدايت نصيب فرمائے اور آپ كو نفس كے شر سے محفوظ ركھے، آپ فيصلہ كرنے سے قبل استخارہ ضرور كريں.

استخارہ كرنے كا طريقہ معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 11981 ) اور ( 2217 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى د عا ہے كہ آپ كوخير ہدايت اور كاميابى و نجات نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب