سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

قالين وغيرہ كى فہرست اور ايك سال تك بغير مشكل پيدا كيے اكٹھے رہنے كى شرط

69814

تاریخ اشاعت : 16-10-2009

مشاہدات : 5989

سوال

بيوى كو قالين اور بستر وغيرہ كى فہرست لكھى گئى اور شرط يہ ركھى گئى كہ اگر وہ ايك برس تك بغير كسى مشكل پيدا كيے اس كے ساتھ رہے گى تو يہ اسے ديے جائينگے، ليكن پہلے مہينہ سے ہى بيوى نے اس شرط پر عمل نہ كيا اور ہر بار وہى عورت ہى غلط ہو گى، تو يہ فہرست بطور امانت ركھنے والا شخص كيا موقف اختيار كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يہ فہرست دو حالتوں سے خالى نہيں:

پہلى حالت:

يا تو يہ مہر كے ساتھ ملحق ہے، جيسا كہ بعض علاقوں ميں ہوتا ہے، تو اس طرح سونا يا نقدى وغيرہ جو كچھ بيوى كو ديا جاتا ہے وہ سب مہر ہو گا، اور جو سامان كى فہرست لكھى جاتى ہے وہ اس مبلغ اور رقم ميں مؤخر طور پر اضافہ ہو گى، لہذا اگر معاملہ ايسا ہى ہے اور يہ فہرست مہر كے ساتھ ملحق تھى تو يہ مہر ميں اضافہ ہے جو ايك شرط كے ساتھ معلق ہے، وہ يہ كہ اگر بيوى ايك برس تك خاوند كے ساتھ بغير كسى مشكل كے رہے گى تو يہ ادا كى جائيگى، اور مہر كو كسى شرط پر معلق ركھ كر زيادہ كرنے ميں فقھاء كرام كا اختلاف ہے، كچھ تو اسے جائز قرار ديتے ہيں اور كچھ اس كو ممنوع كہتے ہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اس شرط كے جواز كو اختيار كيا ہے جب كہ اس كى غرض اور مقصد صحيح ہو، اور بلاشك و  شبہ بيوى كا اپنے خاوند كے ساتھ حسن معاشرت سے رہنا ايك صحيح مقصد اور اچھى غرض ہے، تو اس بنا پر يہ شرط صحيح ہو گى اور اگر وہ اس شرط پر پورى نہيں اترتى تھى تو آپ كے ليے اسے سامان كى فہرست ميں لكھا گيا سامان  دينا لازم نہيں.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 268 - 270 ).

دوسرى حالت:

يہ فہرست مہر كے ساتھ ملحق نہ ہو، بلكہ يہ خاوند كى جانب سے ہبہ اور انعام ہو جو اس نے ايك برس كے دوران بيوى كا كوئى مشكل اور اختلاف پيدا نہ كرنے كے ساتھ مشروط ہو.

اور كسى شرط كے ساتھ معلق ہبہ صحيح ہے، اور يہ اس وقت ہى لازم ہو گا جب شرط پورى ہو، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى اختيار كيا ہے .

ديكھيں: الانصاف ( 7 / 133 ).

حاصل يہ ہوا كہ: بيوى اس سامان كى مستحق نہيں كيونكہ اس نے شرط پر عمل نہيں كيا، چاہے سامان كى وہ فہرست مہر كے ساتھ ملحق تھى يا پھر خاوند كى جانب سے ہبہ تھا.

ليكن .... جب تنازع پيدا ہو جائے اور بيوى يہ دعوى كرے كہ اس نے شرط پورى كى ہے، اور اس ميں كمى و كوتاہى تو خاوند كى جانب سے تھى، تو يہاں معاملہ كو شرعى عدالت ميں پيش كرنا ضرورى ہے، يا پھر كسى ايسے شخص كے سامنے ركھا جائے جو ان دونوں كے مابين فيصلہ كرے اور تنازع كو ختم كرائے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب