اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا مسافر گھر سے نكلنے سے قبل نماز قصر اور كھانا كھا لے ؟

سوال

اگر ميں سو ميل يا اس سے زيادہ مسافت كى فلائٹ سے سفر كروں تو سفر سے قبل اور سفر كے بعد كتنى ركعت ادا كرونگا ؟
ميرے خيال ميں فلائٹ سے قبل اور بعد دو ركعت ادا كرنى ہيں، كيا ايسا ہى نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سنت نبويہ ميں سفر كى مسافت كى تحديد نہيں ہے، علماء كرام اس كى تحديد ميں بہت زيادہ اختلاف كا شكار ہيں.

اور صحيح يہ ہے كہ اس ميں ہر علاقے اور ملك كے عرف سے رجوع كيا جائيگا، جسے لوگ سفر سمجھتے ہوں وہ سفر ہو گا جس ميں روزہ بھى افطار كيا جا سكتا ہے، اور نماز بھى قصر ہو گى.

محققين كى جماعت نے يہى قول اختيار كيا ہے، ان ميں ابن قدامہ مقدسى اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ شامل ہيں، اس كے متعلق آپ سوال نمبر ( 10993 ) اور ( 38079 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

دوم:

مسافر اس وقت تك سفر كى رخصت پر عمل نہيں كر سكتا جب تك وہ اپنے شہر كى آبادى سے نكل نہ جائے، اورجب تك وہ سفر كى حالت ميں رہے گا وہ سفر كى رخصتوں پر عمل كرتا رہے گا حتى كہ سفر سے واپس اپنے علاقے ميں لوٹ آئے.

چنانچہ اس كے ليے اپنے شہر اور بستى كى آبادى سے نكلنے سے قبل نماز قصر كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے ليے حلال ہے كہ وہ اپنے گھر ميں يا شہر ميں ہى ہو اور نماز قصر كرنا شروع كردے.

اور روزہ افطار كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، بعض علماء كہتے ہيں كہ جب سفر كا يقينى اور پختہ عزم كرلے اور اپنى سوارى تيار كرلے تو اس كے ليے روزہ افطار كرنا جائز ہے، ليكن جمہور علماء كرام منع كرتے ہيں، ان كے ہاں روزہ افطار كرنا اس وقت جائز ہو گا جب اس كے ليے نماز قصر كرنا جائز ہو گى، يعنى آبادى سے نكلنے كے بعد، يہى قول احوط اور قوى ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" كيا جب سفر كا عزم ہو اور سفر كے ليے كوچ كرے تو كيا بستى سے نكلنا شرط ہے، اور كوچ كرنے كے بعد روزہ افطار كر سكتا ہے ؟

جواب:

اس ميں بھى سلف رحمہ اللہ كے دو قول ہيں:

بعض اہل علم كہتے ہيں كہ جب وہ سفر كى تيار مكمل كر لے اور سرف سوارى پر سوار ہونا باقى ہو تو اس كے ليے روزہ افطار كرنا جائز ہے، ان كہنا ہے كہ انس رضى اللہ تعالى عنہ ايسا ہى كيا كرتے تھے.

اور جب آپ درج ذيل آيت پر غور كريں گے تو آپ يہ صحيح نہيں پائيں گے، كيونكہ وہ ابھى تك تو سفر پر ہے ہى نہيں، بلكہ وہ ابھى تو مقيم اور حاضر ہے.

اور جو كوئى مريض ہو يا سفر پر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے .

اس بنا پر اس كے ليے بستى كى آبادى اور گھروں سے باہر نكل كر روزہ افطار كرنا جائز ہو گا...

ليكن نكلنے سے قبل نہيں؛ كيونكہ سفر شروع نہيں ہوا.

چنانچہ صحيح يہ ہے كہ وہ بستى سے باہر نكلنے سے قبل روزہ افطار نہيں كرے گا، اسى ليے اس كے ليے شہر سے نكلنے سے قبل نماز قصر كرنا جائز نہيں تو اسى طرح شہر سے نكلنے سے قبل روزہ افطار كرنا بھى جائز نہيں ہو گا. انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 346 ).

اس بنا پر سفر كا عزم كرنے والے شخص كے ليے اپنے گھر ميں نماز قصر كرنا جائز نہيں، كيونكہ قصر سفر كے احكام اور اس كى رخصت ميں سے ہے، اور وہ ابھى اپنے گھر ميں ہے نہ كہ مسافر، جمہور علماء كا قول يہى ہے.

اس مسئلہ ميں شاذ اقوال بھى ہيں مثلا: اپنے گھر ميں نماز قصر كر سكتا ہے، اور جب وہ دن كے وقت سفر كرے تو رات سے قبل نماز قصر نہيں كر سكتا اور تيسرا قول يہ ہے كہ اپنے گھر كى چار ديوارى كراس كر لے تو نماز قصر كرنا جائز ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ہمارا مذہب يہ ہے كہ جب وہ شہر كى آبادى سے نكل جائے تو نماز قصر كر سكتا ہے، اور آبادى سے نكلنے سے قبل قصر نہيں كرسكتا، چاہے وہ اپنے گھر سے نكل چكا ہو، امام مالك ابو حنيفہ احمد اور جمہور علماء كا قول يہى ہے.

اور ابن منذر نے حارث بن ابى ربيعہ سے بيان كيا ہے كہ جب وہ سفر كا ارادہ كرتے تو انہيں اپنے گھر ميں دو ركعت پڑھاتے، اور ان ميں اسود بن يزيد اور كئى ايك ابن مسعود كے ساتھى شامل ہيں وہ كہتے ہيں:

اور ہم نے اس معنى ميں ہى عطاء و سليمان بن موسى سے روايت كيا ہے وہ كہتے ہيں: مجاہد كا كہنا ہے: دن كے وقت سفر كرنے والا رات سے قبل نماز قصر نہيں كر سكتا.

ابن منذر كہتے ہيں: ہميں نہيں معلوم كے اس كى كسى نے موافقت كى ہو، اور قاضى ابو طيب وغيرہ نے مجاہد سے بيان كيا ہے كہ ان كا قول ہے: اگر دن ميں سفر كے ليے نكلے تو رات ہونے سے قبل نماز قصر نہ كرے، اور اگر رات كو نكلے تو دن ہونے سے قبل قصر نہ كرے.

اور عطاء كا قول ہے: جب وہ اپنے گھر كى چار ديوارى سے باہر آ جائے تو قصر كر سكتا ہے.

چنانچہ يہ دونوں مذہب صحيح نہيں بلكہ فاسد ہيں، مجاہد كا مذہب صحيح احاديث كى وجہ سے متروك ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب مدينہ سے نكلے تو انہوں نے ذوالحليفہ ميں نماز قصر كى، اور عطاء اور اس كے موافقين كا مذہب سفر كے اسم كى بنا پر متروك ہے" انتہى

ديكھيں: المجموع ( 4 / 228 ).

اگر مسافر كے ليے دوران سفر راستے ميں دوسرى نماز ادا كرنے ميں مشقت ہو تو سفر سے قبل دونوں نمازيں جمع كرنا جائز ہے، ليكن قصر نہيں كر سكتا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جب آپ اپنے وطن واپس آنے كا عزم ركھتے ہيں تو صحيح قول كے مطابق قصر يا اقامت كے ليے كوئى مدت معين نہيں، ليكن اگر آپ مطلق اقامت كى نيت كريں تو آپ كے حق ميں سفر كا حكم ختم ہو گيا ہے.

اور سفر كے احكام اس وقت شروع ہوتے ہيں جب مسافر اپنا علاقہ اور وطن چھوڑ دے اور شہر يا بستى كى آبادى سے باہر نكل جائے، اور آپ كے ليے شہر سے نكلے سے قبل نمازيں جمع كرنا حلال نہيں، ليكن اگر آپ كو خدشہ ہو كہ دوران سفر دوسرى نماز ادا نہيں كرسكتے تو پھر جمع كر ليں" انتہى

مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 15 / 346 ).

شيخ محمد صالح الفوزان كہتے ہيں:

" جب آپ نے ابھى سفر شروع نہ كيا ہو اور ظہر كى نماز كا وقت ہو جائے تو آپ كے ليے ظہر كى نماز پورى ادا كرنى واجب ہو گى قصر نہيں كر سكتے.

اور عصر كى نماز كے متعلق گزارش ہے كہ اگر تو آپ كا سفر عصر كے وقت ختم ہو جائے تو آپ منزل مقصود پر پہنچ كر نماز عصر وقت ميں اور پورى ادا كرينگے.

ليكن اگر ظہر سے مغرب كے بعد تك سفر جارى رہے اور دوران سفر ہى عصر كا وقت نكل جائے اور آپ كے ليے گاڑى سے اترنا ممكن نہ ہو جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے كہ ڈرائيور گاڑى كھڑى كرنے پر نہيں مانا تو اس حالت ميں نمازيں جمع كرنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ يہ عذر كى حالت ہے جو جمع كو مباح كرتى ہے، ليكن نماز پورى ادا كرنا ہو گى.

جب آپ اپنے گھر ميں عصر اور ظہر كى نماز جمع تقديم كر كے ادا كريں اور اس كے بعد سفر كرنے كا ارادہ ہو تو آپ ظہر اور عصر چار چار ركعت ادا كرينگے، جمع كرنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ اس حالت ميں جمع كرنى مباح ہے، ليكن قصر نہيں ہو سكتى كيونكہ اس كا وقت شروع نہيں ہوا؛ اس ليے كہ قصر اس وقت ہو سكتى ہے جب مسافر اپنے شہر كى آبادى سے باہر نكل جائے" انتہى

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 62 ).

اور شيخ حفظہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" سفر كے احكام شہر سے باہر نكلنے كے بعد شروع ہوتے ہيں، جب انسان اپنے رہائشى شہر سے باہر نكل جائے، يعنى وہ شہر كى آبادى كو پيچھے چھوڑ دے تو اس كے حق ميں سفر كے احكام شروع ہو جائيں گے؛ اور وہ نماز قصر اور رمضان ميں روزہ افطار كرسكتا ہے، ليكن جو ابھى آبادى ميں ہو اس كے حق ميں سفر كے احكام شروع نہيں ہونگے.

اور اگر ابھى وہ آبادى ميں ہى ہو اور نماز كا وقت ہو جائے تو وہ حاضرين اور مقيم حضرات كى طرح نماز بروقت اور پورى ادا كرےگا؛ كيونكہ اس كے حق ميں ابھى سفر شروع ہى نہيں ہوا، اگرچہ وہ ايك محلہ سے دوسرے محلہ ميں سے ہوتا ہوا سفر پر نكلے، كيونكہ يہ مسافر شمار نہيں ہو گا حتى كہ جب تك وہ شہر كى سارى آبادى سے نكل نہيں جاتا" انتہى

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 62 - 63 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب