اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كتے كى خريد و فروخت كرنے كى حرمت

69818

تاریخ اشاعت : 30-04-2007

مشاہدات : 20858

سوال

كتوں كى خريد و فروخت كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سوال نمبر ( 69777 ) كے جواب ميں كتا ركھنے كى حرمت بيان ہو چكى ہے، اور يہ بھى بيان كيا جا چكا ہے كہ جو شخص بھى كتا پالےگا اس كے اجروثواب ميں سے روزانہ دو قيراط ثواب كى كمى ہوتى ہے، ليكن شكار اور جانوروں اور كھيت كى ركھوالى كے ليے كتا ركھنا جائز ہے.

دوم:

ليكن كتے كى خريد و فروخت حرام ہے، چاہے اس قسم كا كتا ہو جو پالنا اور ركھنا جائز ہے.

كتے كى خريد و فروخت كى ممانعت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كئى ايك احاديث ثابت ہيں، ذيل ميں ہم چند ايك احاديث پيش كرتے ہيں:

1 - امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت سے منع فرمايا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1944 ).

2 - امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو مسعود انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت، اور زانيہ عورت كى اجرت اور كاہن اور نجومى كى شرينى سے منع فرمايا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2083 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2930 ).

3 - امام ابو داود نے عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت سے منع فرمايا، اور اگر كوئى تيرے پاس كتے كى قيمت كا مطالبہ لے كر آئے تو اس كى مٹھى مٹى سے بھر دو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3021 ).

حافظ ابن حجر نے اس كى سند كو صحيح كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

4 - امام داود نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كتے كى قيمت حلال نہيں، اور نہ ہى كاہن اور نجومى كى شرينى اور نہ ہى فاحشہ عورت كى اجرت "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3023 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ اس كى سند حسن ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ لكھتے ہيں:

" كتے كى قيمت سے ممانعت اور اس كى كمائى سب سے برى ہونا، اور كتے كا خبيث ہونا اس كى خريد و فروخت كے حرام ہونے كى دليل ہے اور اس كى دليل ہے كہ اگر فروخت بھى كيا جائے تو اس كى بيع صحيح نہيں ہوگى، اور نہ ہى اس كى قيمت حلال ہے، اور نہ ہى اسے تلف كرنے پر كوئى قيمت ادا كرنا ہوگى، چاہے وہ كتا تعليم شدہ ہو، يا نہ، اور چاہے وہ كتا ہو جس كا ركھنا جائز ہے يا ركھنا جائز نہيں.

جمہور علماء جن ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ، اور حسن بصرى اور ربعيہ، اور اوزاعى، حكم، حماد، امام شافعى، امام احمد، داود، ابن منذر، وغيرہ شامل ہيں.

اور ابو جحيفہ كہتے ہيں كہ جس كتوں ميں منفعت ہو ان كى خريد و فروخت جائز ہے، اور اس كے تلف كرنے پر اس كى قيمت ادا كرنا ہوگى، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے جابر، عطاء، نخعى رحمہم اللہ سے شكارى كتے كى خريد و فروخت كا جواز بيان كيا ہے، اس كے علاوہ كسى اور كتے كى نہيں ... اور جمہور علماء كرام كى دليل يہى احاديث ہيں " انتہى.

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نہى سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اس كى خريد و فروخت حرام ہے، اور يہ ہر كتے كو عام ہے، چاہے وہ معلم ہو يا كوئى اور كتا جس كا پالنا اور ركھنا جائز ہو يا ركھنا اور پالنا جائز نہ ہو، اور اس سے يہ لازم آتا ہے كہ اس كے تلف كرنے پر كوئى قيمت نہيں، جمہور علماء كا يہى كہنا ہے " انتہى.

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:

" كتے كى خريد و فروخت باطل ہونے ميں كوئى مذہب مختلف نہيں، يعنى چاہے كوئى بھى كتا ہو " انتہى.

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" كتوں كى بيع جائز نہيں، اور نہ ہى ان كى قيمت حلال ہے، چاہے كتا شكارى ہو، يا كھيت وغيرہ كى ركھوالى والا يا كوئى اور، كيونكہ ابو مسعود عقبہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے كى قيمت، اور فاحشہ عورت كے مہر ( فحاشى كى اجرت ) اور كاہن و نجومى كى شرينى سے منع فرمايا ہے "

متفق عليہ " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 36 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" كتے كى بيع باطل ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 19 / 39 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كتے كى بيع جائز نہيں، حتى كہ اگر اسے شكار كے ليے بھى فروخت كيا جائے تو بھى جائز نہيں ہے " انتہى بتصرف.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 90 ).

دوم:

كتے كى خريد و فروخت كو جائز قرار دينے والوں نے نسائى شريف كى درج ذيل روايت سے استدلال كيا ہے:

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے اور بلى كى قيمت سے منع فرمايا، ليكن شكارى كتے كى قيمت سے نہيں "

سنن نسائى حديث نمبر ( 4589 ).

اس حديث ميں " ليكن شكارى كتے كى قيمت سے نہيں " كا استثناء ضعيف ہے.

امام نسائى رحمہ اللہ اس حديث كو روايت كرنے كے بعد كہتے ہيں يہ منكر ہے.

اور سندى رحمہ اللہ نے نسائى كے حاشيہ ميں كہا ہے: اس كے ضعيف ہونے ميں مدثين كا اتفاق ہے.

اور مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ رقمطراز ہيں:

" شكارى كتے كے علاوہ باقى كتوں كى قيمت كى نہى ميں وارد شدہ سب احاديث، اور يہ روايت كہ: عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے ايك شخص كو كتا قتل كرنے كى بنا پر بيس اونٹ كا جرمانہ كيا تھا، اور يہ كہ عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ نے كتا مارنے ميں جرمانہ كا كہا ہے، يہ سب روايات ضعيف ہيں، اس پر سب آئمہ حديث كا اتفاق ہے " انتہى.

سوم:

جب شكارى يا ركھوالى والے كتے كى ضرورت ہو، يا پھر كوئى شخص بھى فروخت كيے بغير نہ دے تو پھر اسے خريدنا جائز ہے، اور اس كا گناہ فروخت كرنے والے پر ہوگا، كيونكہ اس نے وہ چيز فروخت كى ہے جس كا فروخت كرنا جائز نہيں.

ابن حزم رحمہ اللہ " المحلى " ميں رقمطراز ہيں:

" كتے كى بيع اصلا جائز نہيں، نہ تو شكارى كتے كى اور نہ ہى جانوروں كى ركھوالى كے ليے، اور نہ ہى كسى اور كتے كى، اور اگر اس كے ليے مجبور اور مضطر ہونا پڑے، اور كوئى بھى ايسا شخص نہ ملے جو اسے كتے دے، تو اس حالت ميں اس كے ليے كتا خريدنا جائز ہوگا، اور يہ خريدار كے ليے تو حلال ہوگا، ليكن فروخت كرنے والے كے ليے حرام، جب بھى استطاعت اور قدرت ہو فروخت كرنے والے سے خريدار كتے كى قيمت چھين لے، ظلم روكنے كےليے رشوت كى طرح، اور قيدى كو چھڑانے كے ليے فديہ كى طرح، اور ظالم كى روادارى جيسے، اور ان سب ميں كوئى فرق نہيں " انتہى.

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 7 / 493 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب