جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

بجلى كے بل حكومت كو ادا نہ كرنے كا حكم

70274

تاریخ اشاعت : 17-06-2007

مشاہدات : 8368

سوال

كيا ہمارے دور حاضر ميں مسلمان حكومت كے ليے جائز ہے كہ وہ پانى اور بجلى كم خرچ كرنے كى دليل ديتے ہوئے اپنے شہريوں پر بے جا بجلى اور پانى كے بل ڈال دے ؟
كيا سٹريٹ لائٹ اور عام سڑكوں پر لائٹنگ كرنا اس حديث كے منافى تو نہيں جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
" .. اور اپنے چراغ گل كر ديا كرو "؟
ايك حديث ميں كچھ اس طرح كے معانى بھى پائے جاتے ہيں:
" كوئى بھى مسلمان شخص اپنے مسلمان بھائى كو تين اشياء پانى، اور گھاس، اور آگ دينے سے نہ ركے "
كيا ہمارے ليے جائز ہے كہ ہم اس طرح كے طاقت سے زيادہ بل كى ادائيگى ميں كوئى حيلہ كر ليں، اور اگر كوئى حيلہ كرنا جائز نہيں تو پھر زندگى ميں تبديلى كرنا كس طرح ممكن ہے جس وقت خاندان كا سربراہ اپنے خاندان، اور عزيز و اقارب اور پڑوسيوں كے متعلق عذر مند نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حكومتوں اور ذمہ داران كو اپنے شہريوں كے ساتھ شفقت برتنى چاہيے، اور ان پر شفقت كرنا واجب ہے، اور انہيں چاہيے كہ وہ اپنے شہريوں پر اتنا بوجھ نہ ڈاليں جو ان كى براداشت سے ہى باہر ہو، اور وہ بنيادى ضروريات جن كے بغير لوگوں كا گزارا نہيں ہوتا اس ميں حكومت كو اتنى مہنگائى اور ذخيرہ اندوزى نہيں كرنى چاہيے، اور پھر ذخيرہ اندوزى كر كے اور بھى زيادہ مہنگا كر كے فروخت كرنا جائز نہيں.

اور حكومتوں كو يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ وہ سرمايہ كارى كمپنياں نہيں جن كا مقصد صرف اور صرف اپنے شہريوں سے منافع كمانا ہو، بلكہ ان كا سب سے عظيم ترين كام اور مقصد اپنے شہريوں كى خدمت كرنا، اور ان كے ليے ہر معاملہ ميں آسانى و سہولت پيدا كرنا اور ان كے ساتھ شفقت و مہربانى كے معاملات كرنا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى دعا ميں يہ الفاظ كہا كرتے تھے:

" اے اللہ جو كوئى بھى ميرى امت كے كسى كام كا ذمہ دار اور سربراہ بنے اور اس نے اس پر مشقت كى تو اے اللہ تو بھى اس پر مشقت پيدا كر دے، اور جو كوئى بھى ميرى كے كسى كام كا ذمہ دار اور سرابرہ بنا اور اس نے اس پر مہربانى اور شفقت كى تو اے اللہ تو بھى اس پر مہربانى اور شفقت فرما "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1828 ).

اور ان حكومتى ذمہ داران اور اہلكاران كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ وہ كل روز قيامت اللہ تعالى كے سامنے كھڑے ہونگے، اور انہيں اپنے اعمال كا حساب و كتاب دينا ہوگا، اور ان اعمال كا انہيں بدلہ بھى ملےگا، اور ہر حاكم اور مسئول كو اور ذمہ دار كو اس كے ماتحت رعايا كے متعلق جواب دينا ہوگا.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے ہر ايك شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس كى رعايا كے متعلق باز پرس ہو گى "

عمر رضى اللہ تعالى عنہ فرمايا كرتے تھے:

" اگر عراق ( اس وقت اسلامى مملكت كا ايك حصہ تھا ) ميں ايك خچر بھى پھسل كر گر پڑے تو روز قيامت اللہ تعالى مجھے اس كے متعلق سوال كريگا كہ اے عمر تو نے اس كے ليے راستہ كيوں نہيں بنايا تھا!!

قيامت والے دن تو اس حد تك سوال ہو گا حتى كہ حيونات اور جانوروں كے بارہ ميں پوچھا جائيگا، تو پھر ہزاروں يا لاكھوں اور كروڑوں انسان جن پر ظلم ہو رہا ہے اس كے متعلق ؟!

اور عدل و انصاف كى بنا پر حكومتيں قائم رہتى ہيں، اور ظلم و ستم كى وجہ سے حكومتيں گر پڑتيں ہيں.

اسى ليے مقولہ ہے كہ: بلا شبہ عدل و انصاف كرنے والى حكومت كو اللہ تعالى قائم ركھتا ہے، چاہے وہ كافرہ حكومت ہى ہو، اور ظالم حكومت كو قائم نہيں ركھتا چاہے وہ مسلمان ہى كيوں نہ ہو.

اور يہ بھى كہا جاتا ہے كہ: دنيا كو عدل و انصاف اور كفر بھى دوام ديتا ہے، ليكن ظلم و اسلام كے ساتھ اسے دوام نہيں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بغاوت اور قطع رحمى سے زيادہ جلد سزا والا كوئى اور گناہ نہيں "

چنانچہ باغى شخص كو دنيا ميں سزا مل جاتى ہے چاہے آخرت ميں اس پر رحم كر ديا جائے اور اسے بخش ديا جائے، يہ اس ليے كہ عدل و انصاف ہر چيز كا نظام ہے؛ تو جب دنياوى معاملہ عدل و انصاف كے ساتھ قائم ہو تو وہ قائم رہتا ہے، چاہے اس پر عمل كرنے والے شخص كو آخرت ميں كچھ بھى حصہ نہ ملے، اور جب عدل و انصاف پر مبنى نہ ہو تو وہ قائم نہيں رہتا، چاہے اس پر عمل پيرا شخص صاحب ايمان ہو جو اسے آخرت ميں كفائت كرنے والا ہو گا "

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ابن تيميہ ( 28 / 146 ).

دوم:

مسلمان شخص كو صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اجر وثواب كى نيت ركھتے ہوئے دھوكہ و فراڈ اور ظلم كا مقابلہ اس جيسے دھوكہ اور ظلم كے ساتھ نہيں كرنا چاہيے.

اس ليے بجلى كے ميٹر كے ساتھ كوئى كھيل كرتے ہوئے اسے خراب كر كے استعمال نہيں كرنا چاہيے، اور نہ ہى مستحق بل كى ادائيگى ميں كوئى حيلہ وبہانہ كرنا چاہيے؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں دھوكہ و فراڈ اور جعل سازى كے ساتھ لوگوں كا ناحق مال كھانا ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا كافرہ حكومت كو كمزور كرنے كے ليے بجلى يا پانى كا ميٹر كھڑا كر استعمال كرنا جائز ہے، يہ علم ميں ركھيں كہ حكومت مجھ سے زبردستى اور ظلم كرتے ہوئے ٹيكس ليتى ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں لوگوں كا مال باطل طريقہ سے كھانا ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 441 ).

مستقل فتوى كميٹى سے يہ سوال بھى كيا گيا:

كيا بجلى يا پانى يا ٹيلى فون، يا گيس وغيرہ كے بل كى ادائيگى نہ كرنے كے ليے كوئى حيلہ كرنا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ ان ميں سے اكثر امور كا انتظام ايسى شراكت دار كمپنياں سنبھالتى ہيں جوعام لوگوں كى ملكيت ہيں ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں لوگوں كا مال باطل طريقہ سے كھايا جاتا ہے، اور امانت كى عدم ادائيگى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يقينا اللہ تعالى تمہيں حكم ديتا ہے كہ تم امانتيں ان كے مالكوں كے سپرد كر ديا كرو .

اور دوسرے مقام پر كچھ اسطرح فرمايا:

اے ايمان والو تم آپس كا مال باطل طريقہ سے مت كھاؤ، ہاں اگر وہ تمہارى آپس كى رضامندى سے تجارت ہو پھر ٹھيك ہے، اور تم اپنے نفسوں كو قتل مت كرو، يقينا اللہ تعالى تمہارے ساتھ بہت زيادہ رحم كرنے والا ہے . انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ الافتاء ( 23 / 441 ).

سوم:

حديث سے بيان كردہ استدلال:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تين اشياء سے منع نہيں كرنا چاہيے، پانى، گھاس، اور آگ "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2473 ).

اور ايك روايت ميں ہے:

" تين اشيا پانى، گھاس، اور آگ ميں سب مسلمان شريك ہيں، اور اس كى قيمت حرام ہے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2472 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

آپ نے ان احاديث سے جو استدلال كيا ہے وہ صحيح نہيں، كيونكہ جب ان اشياء كو اپنے كنٹرول اور قبضہ ميں كر ليا جائے تو فروخت كرنا جائز ہے، مثلا شيشيوں ميں پانى بند كر كے فروخت كرنا جائز ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قولہ: " اور كنويں كا پانى فروخت كرنا صحيح نہيں، تو اس پانى كى بيع جائز نہيں ہوگى كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" لوگ تين اشياء ميں شريك ہيں: پانى، گھاس، اور آگ "

اور اس ليے كہ يہ پانى انسان كى قدرت سے نہيں بلكہ اللہ تعالى كى قدرت سے نكلا ہے، بعض اوقات انسان بہت ہى گہرا كنواں كھودتا ہے ليكن پانى پھر بھى نہيں نكلتا، تو يہ پانى اس كى كوشش اور فعل سے خارج نہيں ہوا، بلكہ وہ اسے نكالنے كا سبب اور باعث ہے اس ليے وہ اس كا مالك نہيں بن سكتا، اور جب وہ اس كا مالك نہيں تو پھر اس پانى كا فروخت كرنا صيح نہيں، ليكن جب وہ پانى اس كى ملكيت ہو اور اس نے اپنے قبضہ ميں كيا ہو اور اسے نكال كر اپنے پاس اسے حوض ميں ركھا ہو تو پھر اس كے ليے وہ پانى فروخت كرنا جائز ہے؛ اس ليے كہ وہ اسے اپنے پاس جمع كرنے كى وجہ سے اس كا مالك بن گيا ہے " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 8 / 154 ).

اور اسى طرح چراغ بجھانے والى حديث سے استدلال كرنا بھى صحيح نہيں، كيونكہ اس حديث كا ظاہر صرف ان چراغوں اور لالٹين وغيرہ پر اطلاق ہوتا ہے جو گھر ميں آگ لگنے كا باعث بنيں، اور ابو داود كى حديث كے الفاظ يہ ہيں:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

ايك چوہيا آئى اور اس نے بتى پكڑ كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے لا كر اس چٹائى پر پھينك دى جس پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشريف فرما تھے، تو وہ چٹائى ايك درہم جتنى جل گئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم سونے لگو تو اپنے چراغ بھجا ديا كرو، كيونكہ شيطان اس طرح كى اشياء كو اس كى راہ بتاتا ہے تو تم كو جلا كر ركھ ديگى "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 5247 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور مسلم رحمہ اللہ نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" چراغ بھجا ديا كرو.... چو ہيا گھر والوں پر ان كے گھر كو جلا ديتى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2012 ).

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سونے سے قبل چراغ بجھانے كا حكم ديا ہے جب اس كا خدشہ ہو كہ اس كے جلتے رہنا گھر ميں آگ لگنے كا باعث ہو، اور اسى ليے علماء كرام مثلا ابن دقيق العيد، اور امام نووى، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ:

جب انسان كو سونے سے قبل يہ اعتماد اور وثوق ہو كہ چراغ نہيں گرےگا تو اس وقت چراغ جلا كر سونے ميں كوئى حرج نہيں "

ديكھيں: فتح البارى ( 11 / 89 ).

اور يہ بھى كہا جا سكتا ہے كہ:

سٹريٹ لائٹ اور سڑكوں پر لائٹ جلا كر ركھنے ميں جرائم اور برائيوں ميں كمى واقع ہوتى ہے، اور يہ چيز سب كے مشاہدہ ميں بھى ہے.

چہارم:

ہر انسان كو چاہيے كہ وہ بجلى اور پانى كے استعمال ميں احتياط كرے اور اس كے استعمال ميں كمى كرے، اور صرف اسے اپنى ضرورت كے مطابق ہى استعمال كرنى چاہيے، اس ميں كسى بھى قسم كا اسراف اور فضول خرچى نہيں كرنى چاہيے كيونكہ اسراف اور فضول خرچى اور مال ضائع كرنے كى ممانعت والے عمومى دلائل اسى پر دلالت كرتے ہيں، رشتہ داروں اور پڑوسيوں كا خيال ركھے بغير جيسا كہ وہ كہہ رہا ہے.

اور يہ ديكھا گيا ہے كہ بہت سے لوگ اپنے گھر كے سب كمروں كى بغير كسى ضرورت كے لائٹيں جلا كر ركھتے ہيں، يا پھر وہ ائركنڈيشن اور گيزر چلانے ميں فضول خرچى سے كام ليتے ہيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو صحيح راہ كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب