الحمد للہ.
آپ پر واجب اور ضرورى ہے كہ اپنے بھائى كو پابندى سے نماز ادا كرنے كى نصيحت كريں، اور نماز ترك كرنے والے كے متعلق اللہ تعالى كا حكم اس كے علم ميں لائيں، اور اپنے ليے اسے ذبح كرنے سے روك ديں، اور اس كا سبب بھى اسے بتائيں كہ ہم نے جس وجہ سے آپ كو ذبح كرنے سے روكا ہے وہ نماز نہ پڑھنا ہے، لھذا اس كى ذبيحہ حلال نہيں.
ہو سكتا ہے جب بے نماز كا حكم اس كے علم ميں آئے تو وہ اپنے دين كى طرف واپس پلٹ آئے، اور نماز كى ادائيگى شروع كردے، اور اس كے دين و دنيا اور اور زندگى و آخرت كے ليے يہى بہتر ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
كيا جان بوجھ كر نماز ترك كرنے والے كا ذبح كيا ہوا گوشت كھانا حلال ہے؟ يہ علم ميں رہے كہ جب اسے يہ بتايا جاتا ہے تو وہ دليل ديتا ہے كہ وہ تو كلمہ پڑھتا ہے، اگر كوئى نماز ادا كرنے والا قصائى نہ ملے تو پھر كيا كيا جائے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
صحيح تو يہى ہے كہ جو نماز نہيں پڑھتا اس كى ذبح كيا ہوا گوشت بھى نہيں كھايا جائےگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آدمى اور كفر و شرك كے مابين ( حد فاصل ) نماز ترك كرنا ہے"
اسے امام احمد اور سنن اربعہ نے صحيح سند كے ساتھ بريدہ بن حصيب اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.
اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اسلام كى چوٹى اور اس كا ستون نماز ہے"
اسے امام احمد نے اور ترمذى نے صحيح سند كے ساتھ معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.
لھذا جس چيز كا ستون ہى گرجائے وہ قائم اور باقى نہيں رہتى، اور جب ستون گر جائے تو اس پركھڑى عمارت بھى گرجاتى ہے.
اور اس سے يہ معلوم ہوا كہ جو شخص نماز نہيں پڑھتا اس كا دين ہى نہيں، اور اس كا ذبيحہ بھى نہيں كھايا جائےگا، اور جب آپ كسى ايسے علاقے اور شہر ميں ہوں جہاں كوئى قصائى مسلمان نہ ہوتو آپ خود ذبح كريں، اور اپنا ہاتھ وہاں استعمال كريں جو آپ كو نفع دے، يا پھر كوئى مسلمان قصائى تلاش كريں، چاہے وہ آپ كو اپنے گھر ميں ہى جانور ذبح كردے، اور الحمد للہ يہ ميسر بھى ہے، لھذا آپ اس معاملہ ميں كوئى سستى اور كاہلى سے كام نہ ليں.
اور آپ كو چاہيے كہ اس شخص كو نصيحت كريں كہ وہ اللہ تعالى سے ڈرتے ہوئے اللہ تعالى كاتقوى اختيار كرے، اور نماز ادا كرنا شروع كردے، اور اس كا يہ كہنا كہ:
كلمہ ہى كافى ہے: يہ غلط ہے اس كى يہ بات صحيح نہيں، كيونكہ كلمہ اور اس گواہى كے كچھ حقوق اور شرائط ہيں اور ان حقوق كے ادا كيے بغير كوئى چارہ نہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مجھے اس وقت تك لڑنے كا حكم ديا ديا گيا ہے جب تك لوگ اس بات كى گواہى نہ دے ديں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى اور معبود نہيں اور ميں اللہ تعالى كا رسول ہوں، اور نماز قائم كرنے لگيں، اور زكاۃ ادا كريں، جب وہ يہ كام كر ليں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال محفوظ كر ليے، مگر اس كے حق كے ساتھ، اور ان كا حساب اللہ تعالى كے ذمہ"
صحيح بخارى اور صحيح مسلم
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كلمہ كے ساتھ نماز، زكاۃ كى ادائيگى ضرورى قرار دى ہے، اور ايك حديث ميں يہ الفاظ ہيں:
" مجھے لوگوں سے اس وقت تك لڑنے كا حكم ديا گيا ہے جب تك وہ اس بات كى گواہى نہ دے ديں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى اور معبود نہيں، جب وہ گواہى دے ديں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور مال محفوظ كر ليے ليكن اس كے حق كے ساتھ، اور ان كا حساب اللہ كے ذمہ "
اور نماز اور زكاۃ اس كے حق ميں شامل ہے.
لھذا ايك مومن شخص پرواجب اور ضرورى ہے كہ وہ اللہ تعالى كى تقوى اخيتار كرے اور اللہ تعالى سے ڈرے، اور دين اسلام كى طرف منسوب شخص كو اللہ تعالى سے ڈرنا چاہيے اور پانچوں نمازيں باقاعدگى سے ادا كرنى چاہيے، نمازيں اسلام كا ستون اور شھادتين كے بعد اسلام كے اركان ميں سے ايك عظيم ركن ہے، جس شخص نے بھى اس ركن و ضائع كر ديا اس نے اپنا دين ہى ضائع كر ديا، اور جس نے نماز ترك كردى وہ اپنے دين سے ہى خارج ہو گيا اللہ تعالى ہميں اس سے سلامت ركھے.
حق اور صحيح تو يہى ہے، اور بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ:
اس سے وہ كفر اكبر كا مرتكب نہيں ہوتا، ليكن كفر اصغر كا مرتكب ہو گا، اور ايك بہت عظيم معصيت و نافرمان كا مرتكب ٹھرے گا، جو زنا اور چورى، اور شراب نوشى سے بھى بڑى نافرمانى ہے، بے نماز كفر اكبر كا مرتكب نہيں ہو گا ليكن اگر وہ نماز كے وجوب كا انكار كرتا ہے تو وہ كافر اور كفر اكبر كا مرتكب ٹھرےگا، اہل علم ميں سے اكثر كا يہى كہنا ہے.
ليكن صحيح اور درست وہى ہے جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان دلالت كر رہا ہے كہ اس طرح كا شخص كفر اكبر كا مرتكب ٹھرے گا، جيسا كہ اس كے متعلق كئى ايك احاديث بيان ہو چكى ہيں؛ كيونكہ اس نے دين اسلام كے ستون نماز كو ضائع كيا ہے.
لھذا اس مسئلہ ميں سستى اور كاہلى سے كام نہيں لينا چاہيے، تابعى جليل عبد اللہ بن شقيق عقيلى رحمہ ا للہ تعالى كا كہنا ہے:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام نماز كے علاوہ كسى اور چيز كے ترك كرنے كو كفر شمار نہيں كرتے تھے.
تو اس طرح انہوں نے صحابہ كرام كا اجماع ذكر كيا ہے كہ ان كے نزديك تارك نماز كافر ہے، اللہ تعالى ہميں اس سے سلامت ركھے.
لھذا اس سے بچنا ضرورى اور واجب ہے، اور اس عظيم القدر فرض كى حفاظت اور خيال كرنا واجب ہے، اور نماز ترك كرنے والے كے بارہ ميں كسى بھى قسم كى سستى اور كاہل نہيں كرنى چاہيے، لھذا نہ تو اس كا ذبح كردہ گوشت كھايا جائے، اور نہ ہى اسے وليمہ كى دعوت دى جائے، اور نہ ہى اس كى دعوت قبول كى جائے، بلكہ اس سے بائيكاٹ كيا جائے حتى كہ وہ اللہ تعالى كے ہاں توبہ كرے اور نماز پڑھنا شروع كردے، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ سب كو ہدايت نصيب فرمائے. انتھى
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 10 / 274 - 276 ).
آپ مزيد تفصيل جاننے كے ليے سوال نمبر ( 1553 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .