الحمد للہ.
اول:
بہت سارى صحيح احاديث سے ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے داڑھى ركھنے كا حكم ديا، اور يہ احاديث داڑھى ركھنے كے وجوب اور داڑھى منڈوانے كى حرمت پر دلالت كرتى ہيں، اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 1189 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
شريعت اسلاميہ كى آسانى اور سماحت ميں يہ چيز شامل ہے كہ اگر كوئى شرعى عذر پايا جائے تو حرام فعل مباح ہوتا ہے، اور واجب كو ترك كرنا مباح ہو جاتا ہے، مثلا كوئى ضرورت يا بہت شديد حاجت مثلا مضطر اور لاچار شخص كا مردار كھانا، يا ضرورت پڑنے پر مرد ڈاكٹر كا كسى اجنبى عورت كا علاج كرنا، ليكن اس كے ليے ضرورى ہے كہ اس ميں شرعى قواعد و ضوابط كا خيال ركھا جائے، اور ضرورت سے زيادہ ميں تجاوز نہ كيا جائے، بقدر ضرورت ہى ہو.
سوم:
مسملمان شخص كو كوشش كرنى چاہيے كہ وہ بقدر استطاعت حرام كام كا ارتكاب كيے بغير اپنى ضرورت پورى كرے، ليكن اگر حرام فعل كے بغير كوئى چارہ نہ ہو تو اس حالت ميں يہ فعل جائز ہوگا.
اس بنا پر آپ كے ليے ضرورى ہے كہ آپ درج ذيل امور كى كوشش كريں:
1 - داڑھى كے بالوں كے ليے مناسب ماسك تلاش كريں، اور كئى مخصوص كمپنيوں نے ائرلائن ميں ملازمت كرنے والے متعصب قسم كے داڑھى والے يہوديوں كے ليے مخصوص ماسك تيار كيے ہيں!!.
2 - كوئى ايسا كام اور ملازمت تلاش كريں جو حرام فعل كے ارتكاب كا متقاضى نہ ہو، چاہے ملك سے باہر ہى ہو.
3 - آپ اپنى خاص تجارت اور كاروبار وغيرہ شروع كرنے كى كوشش كريں.
اور اگر ان سب امور ميں كوشش كے باوجود آپ كچھ نہ كر سكيں تو پھر ان شاء اللہ داڑھى منڈانے پر كوئى حرج نہيں، ليكن يہ اسى پر ہو جو ضرورت اور حاجت پورى كرے، اور اگر چھوٹى كرنے سے كام چل سكتا ہو تو پھر منڈانا جائز نہيں.... اسى طرح باقى بھى.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ جو شخص بھى استطاعت اور طاقت كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے اس كے غم و پريشانى ميں كافى ہو جاتا ہے، اور اس كے ليے وہاں سے نكلنے كى كوئى راہ بنا ديتا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا الطلاق ( 2 - 3 ).
واللہ اعلم .