اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

دوران تلاوت آيات وسورکي ترتيب ميں مخالفت

7198

تاریخ اشاعت : 27-02-2009

مشاہدات : 19175

سوال

میرا سوال جھری اور سری نماز میں قرآنی سورتوں کی ترتیب کے متعلق ہے ۔
تو کیا نمازی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دوران نماز اسی ترتیب سے تلاوت کرے جو کہ قرآن مجید میں ہے ، وہ اس طرح کہ پہلی رکعت میں سورۃ العصر اور دوسری میں سورۃ الکوثر ،
اور کیا یہ جائز ہےکہ مثلا پہلی رکعت میں سورۃ البقرۃ کی آيت ( 50 - 60 ) اور دوسری رکعت میں آيت ( 10 - 20 ) پڑھی جائيں ؟
گزارش ہے کہ اس کی وضاحت اور سبب بھی بیان فرمائيں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

قرآن مجید میں بعدوالی کو پہلے پڑھ لیا جاۓ تو اسے تنکیس کا نام دیا جاتا ہے ، اس کی کئ اقسام ہیں :

تنکیس الحروف

تنکیس الکملمات

تنکیس الآیات

تنکیس السور

تنکیس حروف :

ایک کلمہ میں بعدوالےحروف کو پہلے پڑھ لینا ، مثلا " رب " کو " بر " پڑھنا !

تو اس کی حرمت میں کوئ شک نہیں اور اس کے کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے ، اس لیے کہ کلمہ کو اس طریقے سے جس پر اللہ تعالی نے کلام کی ہے نکال دیا گيا ہے اور پھر اس میں غالبا معنی میں بھی بہت زيادہ اختلاف پیدا ہوجاتا ہے ۔ الشرح الممتع لابن عثیمین ( 3 / 110 ) ۔

تنکیس الکلمات :

یہ ہے کہ بعد والے کلمے کو مقدم کرکے پڑھا جاۓ مثلا " قل ھو اللہ احد " کو" احد اللہ ھو قل " پڑھا جاۓ ۔

تو یہ بھی بلا شک وشبہ حرام ہے اس لیے کہ کلام اللہ کواس وجہ سے نکال دیاگيا جو اللہ تعالی نے کلام کی تھی ۔الشرح الممتع لابن عثیمین ( 3 / 110 ) ۔

تنکیس الآیات :

یہ ہے کہ بعدوالی آيت کو پہلی سے مقدم کرکے پڑھنا ، مثلا من شر الوسواس الخناس کو { الہ الناس سے پہلے پڑھنا ۔

اس کے متعلق قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

بلاشک ہرسورۃ میں آیات کی جو ترتیب آج مصحف میں پائ جاتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے توقیفی ہے ، امت نے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نقل کیا ہے ۔

شرح النووی ( 6 / 62 ) اور ابن العربی نے بھی یہی کہا ہے دیکھیں فتح الباری ( 2 / 257 ) ۔

اور شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

راجح قول یہی ہے کہ آیات کی تنکیس بھی حرام ہے ، اس لیےکہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے ، اورتوقیفی کا معنی یہ ہے کہ یہ ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے دی گئ ہے ۔ الشرح الممتع لابن عثیمین ( 3 / 110 ) ۔

تنکیس السور :

یہ ہے کہ بعد والی سورۃ کو پہلی سے مقدم کرکے پڑھا جاۓ ، مثلا آل عمران سورۃ البقرۃ سے پہلے پڑھ لی جاۓ ۔

اس کا حکم :

علماء میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی نہيں اس لۓ اس میں کو‏ئ حرج نہيں ۔

اور کچھ علماء کا کہنا ہے کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے ، یاپھر اس کی ترتیب میں صحابہ کا اجماع حجت ہے ۔ اس لۓ جائز نہيں ۔

صحیح قول :

صحیح قول یہی ہے کہ ترتیب توقیفی نہیں بلکہ یہ بعض صحابہ کرام کا اجتھاد تھا ، اور یہ کہ صحابہ کرام کے درمیان اس ترتیب میں کو‏ئ اجماع نہيں تھا ، جبکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما کا مصحف اس ترتیب کے خلاف تھا۔

اور بدون ترتیب کے پڑھنے کے جوازپرسنت صحیحۃ میں دلائل ملتے ہيں :

ا – حذیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو انہوں نے نماز سورۃ البقرۃ کے ساتھ شروع کی میں نے خیال کیا کہ آپ سوآیات پر رکوع کریں گے آپ پڑھتے گۓ ، میں نے کہا کہ آّپ اسے ایک رکعت میں پڑھيں گے تو آپ پڑھتے گۓ میں نے کہا کہ اس کوختم کرکے رکوع کريں گے ، آپ نے ختم کرنے کے بعد نساء شروع کردی اسے ختم کرنے کے بعد آل عمران پڑھی اور اسے بھی ختم کیا ۔۔۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 772 ) ۔

تو یہ حديث شاھد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النساء کوآل عمران سے پہلے پڑھا ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے کہ اس حدیث میں اس شخص کے لۓ دلیل ہے جو یہ کہتا ہے کہ مصحف لکھنےمیں سورتوں کی ترتیب مسلمانوں کا اجتھاد ہے ، اور یہ ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب نہیں تھی بلکہ انہوں نے اپنے بعد اسے اپنی امت کے سپرد کردیا ۔

نووی رحمہ اللہ تعالی کہنے ہیں کہ : یہی جمھورعلماء اور امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے ، اورقاضی ابوبکر الباقلانی نے بھی یہی قول اختیارکیا ہے ، ابن الباقلانی کہتے ہیں : دونوں قولوں کے احتمال کے ہوتے ہوۓ یہی قول صحیح ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں ، ہمارا قول یہ ہے کہ نہ تو کتابت میں سورتوں کی ترتیب واجب ہے اورنہ ہی نماز اور درس اورنہ ہی پڑھنے پڑھانے اور تلقین میں ، اس لۓ کہ اس کی ترتیب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئ نص نہیں ملتی ، اور نہ ہی کوئ ایسی تعریف جو کہ اس کی مخالفت کوحرام ہی کرتی ہے ،اسی لیے مصحف عثمان رضي اللہ تعالی عنہ سے قبل مصاحف کی ترتیب میں اختلاف پایا جاتا تھا ۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد امت کے لیے ہرجگہ پر یہ جواز چھوڑا کہ نماز اوردرس وتدریس میں ترتیب ضروری نہيں ۔

نووی رحمہ اللہ تعالی یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ : اہل علم میں سے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے توقیفی ہے جوکہ انہوں نے اس کی تحدید کی تھی جیسا کہ مصحف عثمان میں ہے ، - اور جودوسرے مصاحف کی ترتیب میں اختلاف تھا وہ اس لیے تھا کہ انہیں یہ آخری اورتوقیفی ترتیب پہنچی نہیں تھی - ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سورۃ النساء کو آل عمران سے پہلے پڑھنے کی تاویل کی جاۓ گي کہ ترتیب اور توقیف سے قبل کی بات ہے اوریہ دونوں سورتیں مصحف ابی بن کعب میں اسی ترتیب سے تھیں ۔

نووی رحمہ اللہ کا یہ بھی قول ہے :

پہلی رکعت میں‍ پڑھی گئ سورۃ سے پہلے والی سورۃ کودوسری رکعت میں پڑھنے کے جواز میں کوئ اختلاف نہيں ، مسئلہ صرف یہ ہے کہ نماز اور نماز سے باہر ایسا کرنا مکروہ ہے ۔

کہتے ہیں کہ : اوربعض نے اسے مباح قرار دیا ہے ۔

قرآن کریم کے عکس پڑھنے میں سلف نے جو نہی کی ہے اس کی تاویل یہ ہے کہ سورۃ کے آخر سے شروع کرکے سورۃ کی ابتدا کی طرف پڑھا جاۓ ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

بلاشک ہرسورۃ میں آیات کی جو ترتیب آج مصحف میں پائ جاتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے توقیفی ہے ،اورامت نے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نقل کیا ہے ۔

قاضي عیاض رحمہ اللہ تعالی کی کلام کا اخری حصہ یہی ہے ، واللہ تعالی اعلم ۔ شرح مسلم ( 61- 62 ) ۔

اورشیخ سندھی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

راوی کا یہ کہنا کہ ( پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےآل عران شروع کردی) اس بات کی متقاضی ہے کہ قرآت میں سورتوں کی ترتیب لازم نہيں ۔ شرح النسائ ( 3 / 226 ) ۔

ب – انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری شخص مسجد قباء میں امامت کرواتا تھا تو وہ جب بھی نماز میں کو‏ئ‏ سورت پڑھتا تو اس سے پہلے سورۃ قل ھواللہ احد پڑھ کر کوئ اور سورۃ پڑھتا ، اور وہ ہررکعت میں اسی طرح کرتا تو اس کے نمازیوں نے اس سے بات کی کہ آپ ہررکعت اسی سورۃ کے ساتھ شروع کرتے اور پھر دوسری سورۃ پڑھتے ہیں آپ یاتوقل ھواللہ احد پڑھا کریں یاپھر اسے چھوڑ کراور کوئ سورۃ پڑھیں تو اس نے جواب دیا کہ میں یہ نہیں چھوڑ سکتا ، اگر آپ چاہتے ہيں تو میں امامت کرواتا ہوں ، اوراگر ناپسند کرتے ہو تو امامت چھوڑ دیتا ہوں ، ان کے ہاں وہ سب سے افضل تھا اورنمازیوں کو اس کی امامت اچھی لگتی تھی اور وہ یہ ناپسند کرتے تھے کہ اس کے علاوہ کوئ اور امامت کرواۓ ۔

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاش تشریف لاۓ تو انہوں نے یہ معاملہ ان کے سامنے پیش کیا ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اے فلاں جوکچھ تجھے تیرے نمازی کہتے ہیں اس پر عمل کرنے سے کیا چیز مانع ہے ؟ اور تجھے اس پر کس نے ابھارا ہے کہ تو یہ کام ہر رکعت میں کرتا ہے ؟

تو اس نے جواب میں عرض کیا میں اس سورۃ سے محبت کرتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اس سورۃ کے ساتھ تیری محبت نےتجھے جنت میں داخل کردیا ہے ۔

اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے تعلیقا روایت کیاہے ، اور امام ترمذی نے بخاری سے روایت کیا ہے حدیث نمبر ( 2901 ) ۔

تو اس حديث میں شاھد یہ ہے کہ وہ صحابی ہررکعت میں ہرسورۃ میں قل ھواللہ احد پڑھتا تھا جو کہ آخر میں ہے اس کے بعد اس سے پہلے والی کوئ‏ بھی سورۃ پڑھتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع نہیں فرمایا ۔

ج - عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کا فعل ہے :

امام بخاری رحمہ اللہ الباری بیان کرتے ہیں :

احنف نے پہلی رکعت میں سورۃ الکھف اور دوسری میں یوسف یا یونس پڑھی اور فرمانے لگے کہ میں نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کےساتھ صبح کی نمازان دونوں کے ساتھ ہی پڑھی تھی ۔باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ ۔ کتاب الاذان۔

اورسوال کی آخری قسم کے متعلق ہم یہ کہيں گے کہ :

پہلی رکعت میں سورۃ البقرۃ کی آيت نمبر50 – 60 اور پھر دوسری رکعت میں آيت نمبر1 – 20 پڑھنی جائز ہے اس لیے کہ معنی تام ہی رہے گا ۔

اور رہا یہ مسئلہ کہ سورۃ البقرۃ کی آيت نمبر10 – 20 کوترک کرنا بہتر ہے کیونکہ اس کے معانی میں انقطاع واقع ہوجاتا ہے ، اورہوسکتا ہے کہ آپ نے آیات کے ارقام صرف مثال دینے کے لیے ذکر کیے ہوں اور آپ کا یہ قصد نہیں ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد