منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

اگر كسى كو اپنے ذمہ فرض نمازوں اور روزں كى تعداد كا علم نہ ہو تو اسے كيا كرنا چاہيے ؟

سوال

اگر كسى مسلمان شخص كو فوت شدہ نمازوں اور روزوں كى تعداد كا علم نہ ہو تو اس كى قضاء كيسے كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فوت شدہ نمازيں تين حالتوں سے خالى نہيں:

پہلى حالت:

كسى عذر مثلا نيند يا بھول كر نماز رہ گئى ہو تو اس حالت ميں اس كى قضاء واجب ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى نماز بھول جائے، يا اس سے سويا رہے تو اس كا كفارہ يہ ہے كہ جب ياد آئے اس وقت ادا كر لے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 572 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 684 ) يہ الفاظ مسلم شريف كے ہيں.

اور يہ نمازيں جس ترتيب كے ساتھ فرض ہيں اسى طرح ادا كرنا ہونگى پہلى نماز پہلے؛ كيونكہ جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے كہ:

" عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ جنگ خندق كے روز مغرب كے بعد آئے اور كفار قريش كو برا كہنے اور كوسنے لگے، اور كہا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے عصر كى نماز ادا نہيں كر سكا حتى كہ سورج غروب ہونے كے قريب ہو چكا تھا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ كى قسم ميں نے بھى نماز ادا نہيں كى "

چنانچہ ہم وادى بطحا كى طرف گئے اور نماز كے ليے وضوء كيا اور عصر كى نماز غروب آفتاب كے بعد ادا كى، اور اس كے بعد نماز مغرب ادا كى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 571 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 631 ).

دوسرى حالت:

كسى ايسے عذر كى بنا پر نماز ترك ہو جائے كہ انسان كے حواس ہى اس كے ساتھ نہ ہوں، مثلا بے ہوشى وغيرہ تو اس حالت ميں نماز ساقط ہو جائيگى اور اس كى قضاء واجب نہيں ہو گى.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ميرا ايكسيڈنٹ ہوا اور ميں تين ماہ تك ہاسپٹل ميں رہا، اس دوران مجھے ہوش نہ تھى، ميں نے اس مدت كے دوران نماز ادا نہيں كى، كيا مجھ سے نماز ساقط تھى يا كہ مجھے پچھلى نمازيں ادا كرنا ہونگى ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" اگراس مدت كے دوران آپ كے ہوش و حواس قائم نہ تھے تو آپ سے مذكورہ مدت كى نمازيں ساقط ہيں " انتہى

اور درج ذيل سوال بھى دريافت كيا گيا:

اگر كوئى انسان بے ہوش ہو جائے اور اس مدت ميں اس نے نماز ادا نہ كى ہو تو ہوش آنے كے بعد رہ جانے والى نمازيں كس طرح ادا كرے گا ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" اس مدت كے دوران رہ جانے والى نمازيں قضاء نہيں كى جائينگى، كيونكہ مذكورہ حالت ميں وہ شخص مجنون اور پاگل كے حكم ميں ہے، اور مجنون شخص مرفوع القلم ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 21 ).

تيسرى حالت:

بغير كسى عذر كے جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كى جائے، تو يہ دو حالتوں سے خالى نہيں:

يا تو وہ نماز كا انكار كرنے والا اور اس كى فرضيت كا منكر ہو گا، ايسے شخص كے كفر ميں كوئى شك و شبہ نہيں، اور اس كا اسلام سے كوئى تعلق نہيں اس ليے اسے اسلام قبول كر كے اسلام كے اركان و اجبات پر عمل كرنا ہو گا، اور حالت كفر ميں ترك كى گئى نمازوں كى قضاء اس كے ذمہ نہيں ہيں.

دوم:

يا پھر وہ سستى اور كاہلى كى بنا پر نماز ترك كرتا ہے، تو ايسے شخص كى قضاء صحيح نہيں، كيونكہ اس كے نماز ترك كرنے كا كوئى سبب اور عذر نہيں تھا، اور پھر اللہ تعالى نے نماز تو وقت محدد اور معلوم مدت ميں نماز ادا كرنا فرض كى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يقينا مومنوں پر نماز وقت مقررہ ميں ادا كرنى فرض كى گئى ہے النساء ( 103 ).

يعنى نماز كا وقت مقرر اور محدود ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

شيخ عبد لعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميں نے چوبيس برس كى عمر ہونے كے بعد نمازيں ادا كرنا شروع كى ہيں اور اب ہر نماز كے ساتھ ايك اور فرضى نماز ادا كر رہا ہوں، كيا ايسا كرنا ميرے ليے جائز ہے ؟

اور كيا ميں يہ عمل كرتا رہوں، يا كہ ميرے ذمہ كچھ دوسرے حقوق واجب ہوتے ہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" صحيح يہى ہے كہ جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والے كے ذمہ نماز كى كوئى قضاء نہيں، بلكہ اسے اللہ تعالى كے سامنے توبہ كرنا ہو گى؛ كيونكہ نماز دين اسلام كا ايك ركن اور ستون ہے، اور نماز ترك كرنا بہت عظيم اور بڑے جرائم ميں شامل ہوتا ہے.

بلكہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنا كفر ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارے اور ان كے مابين جو عہد ہے وہ نماز كا ترك كرنا ہے، چنانچہ جو كوئى بھى نماز ترك كرے اس نے كفر كيا "

اسے امام احمد اور اہل سنن نے بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

اور جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" آدمى اور شرك و كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے، اس كے علاوہ بھى اس مضمون كى بہت سى احاديث ہيں.

اس ليے ميرے بھائى آپ كو چاہيے كہ اپنے رب سے سچى اور پكى توبہ كريں اور يہ اس طرح ہو سكتى ہے كہ آپ اپنے كيے پر نادم ہوں، اور آئندہ نماز ترك نہ كرنے كا پختہ عزم كريں، اور فورى طور پر نماز پنجگانہ ادا كرنا شروع كر ديں، اور آپ كے ذمہ ان نمازوں كى قضاء نہيں، نہ تو ہر نماز كے ساتھ اور نہ ہى كسى اور طرح، بلكہ آپ صرف توبہ كريں.

اللہ كا شكر ہے كہ جو كوئى بھى اللہ تعالى كے سامنے توبہ كرتا ہے اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرماتا ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور اے مؤمنو تم سب كے سب اللہ تعالى كى طرف توبہ كرو، تاكہ تم كامياب و كامران ہو جاؤ .

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" توبہ كرنے والا بالكل اسى طرح ہے جس كا كوئى گناہ ہى نہ ہو "

اس ليے آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى توبہ ميں سچائى اختيار كريں، اور اس كے ساتھ ساتھ اپنے نفس كا محاسبہ بھى كريں، اور نماز پنجگانہ باجماعت وقت ميں ادا كرنے كى كوشش كريں، اور جو كچھ ہو چكا ہے اس پر اللہ تعالى سے استغفار كرنے كے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ كثرت سے كريں.

اور آپ خير و بھلائى كى خوشخبرى سن ليں كہ اللہ سبحانہ وتعالى فرماتے ہيں:

اور يقينا ميں اس شخص كو بخش دينے والا ہوں جو توبہ كرتا اور ايمان لے آتا ہے اور پھر اعمال صالحہ كر كے ہدايت اختيار كر ليتا ہے .

اور سورۃ الفرقان ميں جب اللہ سبحانہ وتعالى نے شرك، قتل اور زنا كا ذكر كيا تو اس كے بعد فرمايا:

اور جو كوئى بھى ايسے كام كرے وہ سزا پائے گا، اور روز قيامت اسے دوہرا عذاب ديا جائيگا، اور وہ اس ميں ہميشہ ذليل ہوتا رہے گا، ليكن جو شخص توبہ كرے اور ايمان لے آئے، اور نيك و صالحہ اعمال كرے، يہى لوگ ہيں اللہ تعالى جن كے گناہوں كو نيكيوں ميں بدل ڈالتا ہے، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے .

ہم اپنے اور آپ كے ليے توفيق اور صحت كى دعاء كرتے ہيں، اور دعا ہے كہ اللہ تعالى توبہ كرنے اور خيرو بھلائى كے كاموں پر استقامت كى توفيق نصيب فرمائے" انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 10 / 329 - 330 ).

دوم:

رہا مسئلہ روزوں كى قضاء كا اگر تو يہ روزے اس مدت كے دوران ہى ترك ہوئے ہيں جب نماز ترك كى تھى تو آپ پر ان ترك كردہ ايام كے روزے ركھنا واجب نہيں، كيونكہ تارك نماز كافر اور كفر اكبر كا مرتكب اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ـ جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے ـ اور كافر جب اسلام قبول كرتا ہے تو اس پر كفر كى حالت ميں ترك كردہ عبادات كى قضاء نہيں ہوتى.

ليكن اگر آپ نے روزے اس وقت ترك كيے جب آپ نماز پابندى سے ادا كرتے تھے اس ميں دو احتمال ہيں:

پہلا احتمال:

آپ نے رات روزہ ركھنے كى نيت نہ كى ہو، بلكہ آپ نے روزہ نہ ركھنے كا عزم كر ركھا ہو، تو اس كى قضاء صحيح نہيں، كيونكہ آپ نے بغير كسى عذر كے شرعى طور پر محدود وقت ميں عبادت كى ادائيگى ترك كى ہے.

دوسرا احتمال:

آپ نے روزہ ركھ ليا ليكن دن ميں كسى وقت روزہ توڑ ليا ہو، تو اس روزہ كى قضاء كرنى واجب ہے، كيونكہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رمضان ميں روزے كى حالت ميں دن كے وقت بيوى سے جماع كرنے والے كو كفارہ كا حكم ديا تو اسے فرمايا تھا:

" اس كى جگہ ايك يوم كا روزہ ركھو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2393 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1671 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے " ارواء الغليل حديث نمبر ( 940 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بغير كسى عذر كے رمضان المبارك ميں دن كے وقت روزہ توڑنے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" رمضان المبارك ميں دن كو روزہ توڑنا كبيرہ گناہ ہے، اور ايسا كرنے سے انسان فاسق بن جاتا ہے، اس پر اللہ تعالى كے ہاں توبہ كرنى واجب ہے، اور جس دن كا اس نے روزہ توڑا اس كى جگہ بطور قضاء روزہ بھى ركھنا ہو گا.

يعنى اگر اس نے روزہ ركھ ليا اور بغير كسى عذر كے دن كو روزہ توڑ ليا تو وہ گنہگار ہو گا، اور اس دن كے بدلے اسے روزہ بھى ركھنا ہو گا؛ كيونكہ اس نے جب روزہ ركھ ليا اور روزہ فرض ہونے كى وجہ سے اس نے روزے كى ابتدا كر لى تو نذر كى طرح اس كى قضاء لازم ہو گى.

ليكن اگر بغير كسى عذر كے اس نے اصل ميں جان بوجھ كر عمدا روزہ ركھا ہى نہيں تو اس ميں راجح يہى ہے كہ اس كى قضاء لازم نہيں؛ كيونكہ اسے اس كا كوئى فائدہ نہيں ہو گا، كيونكہ اس كا يہ روزہ قبول ہى نہيں.

اس ليے كہ قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ: جو عبادت بھى كسى وقت كے ساتھ متعين ہے جب بغير كسى عذر كے اس كا متعين كردہ وقت نكل جائے تو وہ قبول نہيں ہوتى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

اور اس ليے بھى كہ يہ اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز ہے، اور اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز كرنا ظلم ہے، اور ظالم سے قبول نہيں ہوتا.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز كرے تو يہى ظالم لوگ ہيں .

اور اس ليے بھى كہ اگر يہ عبادت وقت سے پہلے يعنى وقت شروع ہونے سے قبل كر لى جائے تو قبول نہيں ہو گى، تو اسى طرح اگر وقت گزر جانے كے بعد كى جائے تو پھر بھى قبول نہيں ہو گى، ليكن اگر كوئى عذر ہو تو پھر قبول ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 45 ).

اس پر واجب ہے كہ وہ صدق دل سے سب گناہوں سے سچى توبہ كرے، اور فرائض و واجبات كى پابندى كرے اور برائى اور منكرات كو ترك كر كے كثرت سے نوافل اور اللہ كے قرب والے اعمال كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب