الحمد للہ.
1 - اگر مسجد والوں كے ليے كسى ايك امام كو ركھنا ممكن ہو، اور وہ ان ضخيم اور بڑى مساجد ميں سے نہيں جس كے ليے ايك سے زيادہ امام ركھنے كى ضرورت ہوتى ہے، يا پھر كوئى شخص امامت كے ليے فارغ ہو اور آپ كے پاس مالى استطاعت بھى جو اس امام كى ضروريات پورى كر سكے تا كہ وہ امامت كے فرائض سرانجام دے سكے تو مسجد كے ليے ايك امام اورخطيب مقرر كرنے ميں بہت سے فوائد ہيں:
أ ـ مستقل خطيب لوگوں كى مشكلات اور مسائل كو زيادہ بہتر طريقے سے جان سكتا ہے، تو اس طرح وہ انہيں حل بھى كرسكے گا، اور پھر وہ محلے والوں كے ليے ايك قائد اور مرجع كى حيثيت اختيار كرسكتا ہے، اور جب لوگوں كا علم ہو گا كہ اگلے جمعہ يہى خطيب آئے گا تو وہ اپنى مشكلات اس كے سامنے ركھ سكيں گے، كيونكہ يہ ان كے ليے تحريض كا باعث ہے.
ب ـ فوائد ميں يہ بھى شامل ہے كہ: لوگ خطيب سے وہ مفيد اشياء اور مسائل بھى سن سكيں گے جو سلسلہ وار خطبوں كى شكل ميں ہوں، مثلا سورۃ الفاتحہ كى تفسير، يا پھر قيامت كى نشانياں، يا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے غزوات، اور جنگيں، يا پھر نماز كى ادائيگى كا طريقہ، كيونكہ موضوع كا يہ سلسلہ غالبا ايك خطيب بھى چلا سكتا ہے، كئى ايك خطيب نہيں.
ت ـ فوائد ميں يہ بھى شامل ہے كہ: ہر ہفتہ لوگ ايك نيا مضمون سن سكتے ہيں، كيونكہ ايك مستقل خطيب بار بار اسى موضوع پرخطبہ نہيں ديتا، تا كہ لوگ اس موضوع سے اكتاہٹ نہ محسوس كريں، بلكہ وہ ہر جمعہ كوئى نيا موضوع اختيار كرتا ہے، ليكن مختلف خطيبوں سے ايسا نہيں ہوتا ہو سكتا لوگوں كو كئى ايك مشابہ اور تكرار كے ساتھ مضامين سننا پڑيں، جو ان كے وقت كے ضياع كا سبب بنتا ہے، جس سے زيادہ استفادہ ممكن تھا.
ث ـ اور خطيب ہى امام بھى ہو تو يہ بہتر اور افضل ہے، كيونكہ اس كے پاس نمازيوں كے معاملات اور مشكلات اكٹھے ہوسكتے جنہيں اس كے ليے حل كرنا آسان ہو گا، اور ہو سكتا ہے دوران ہفتہ محلہ والوں كو كوئى حادثہ پيش آ جائے جس كے متعلق اسے بات كرنا پڑے يا پھر خطبہ جمعہ ہى اس موضوع كے متعلق پڑھانا ہو.
ج ـ ان فوائد ميں يہ بھى ہے: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور خلفاء راشدين كے طريقہ كى موافقت ہوتى ہے، كيونكہ مستقل خطيب اور امام وہى تھے.
2 - ايك چيز كى طرف تنبيہ ضرورى ہے جس كا اہتمام بھى بہت زيادہ كرنا چاہيے كہ امام كا عقيدہ كتاب و سنت كے مطابق ہونا چاہيے، يعنى اہل حديث اور سلفى ہو جنہيں اہل سنت والجماعت كا لقب ديا جاتا ہے، وہى امام تمہيں دينى فائدہ دے سكتا ہے، اس كے علاوہ باقى بدعتى لوگ آپ كے ليے نقصان دہ ہيں، اور آپ كو گمراہ كر دينگے.
3 - صحيح العقيدہ ہونے كے ساتھ ساتھ وہ صاحب علم بھى ہو تا كہ آپ اس سے كچھ حاصل كر سكيں، اور نفع مند دروس كا حصول ہو.
4 - اس ميں كوئى مانع نہيں كہ آپ لوگ صاحب علم لوگوں كى ايك كميٹى بنائيں جو امام كو اختيار كرے، كيونكہ جب لوگوں كا ميزان مہربانى اور عاطفت ہو تو پھر وہ نفع اور نقصان دہ چيز ميں امتياز نہيں كر سكتے.
5 - يہ اور اس كے ساتھ يہ لازم نہيں كہ ايك شخص امامت اور خطابت دونوں ميں ماہر اور موافقت ركھتا ہو، بہت سے مشہور و معروف قارى ہيں ليكن وہ شرعى احكام سے جاہل ہيں انہيں ان كا علم نہيں ہوتا، اور بہت سے خطيب ہيں، ان كى خطابت تو بہت اچھى ہے، ليكن انہيں سجدہ سہو كے احكام كا ہى اچھى طرح علم نہيں، اور بہت سے طالب علم ہيں جو خطابت اور لوگوں كے سامنے كھڑے ہو كر بول نہيں سكتے.
لہذا اگر ضرورت ہو كہ امام ايك شخص ہو، اور خطابت كے ليے كوئى دوسرا شخص ركھا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح اگر مسلمان كيمونٹى كے حالات اس كى اجازت نہ ديتے ہوں كہ تعليم اور كام كاج كى بنا پر ايك شخص ہى امامت اور خطابت كے فرائض سرانجام نہ دے سكے تو اس ميں كوئى مانع اور حرج نہيں كہ كچھ لوگ مل كر امامت اور خطابت كے منصب كو سنبھاليں، اور ايك شيڈول بنا كر اس كے مطابق ذمہ دارياں تقسيم كر ليں، تاكہ مسجد كے امور ميں جو خلل پيدا ہو اسے پورا كيا جاسكے.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو خيروبھلائى كے كام كرنے كى توفيق سے نوازے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .