الحمد للہ.
اول:
اسمائے حسنی کی معرفت کا مسلمان کی زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہے؛ کیونکہ مسلمان اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کے ذریعے ہی اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرتا ہے، اور اسی معرفت کی بدولت عقیدہ توحید کو ہر اعتبار سے ٹھوس اور محکم بنا سکتا ہے۔
سوال نمبر: (4043) کے جواب میں اسمائے حسنی کی معرفت کی اہمیت تفصیلی طور پر گزر چکی ہے، آپ اس کا مطالعہ بھی کریں۔
دوم:
اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کی کوئی مخصوص تعداد نہیں ہے، ایک صحیح حدیث ہے جس کے سمجھنے میں کچھ لوگوں کو یہ غلطی لگی کہ اللہ تعالی کے صرف ننانوے نام ہیں، یہ صحیح حدیث بخاری: (2736) اور مسلم: (2677) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کے ننانوے نام (سو سے ایک کم) جو بھی یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا)
نووی رحمہ اللہ نے تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ اللہ تعالی کے نام مذکورہ مخصوص عدد میں محصور نہیں ہیں، اس کی تفصیلات ہم پہلے سوال نمبر: (41003) میں بیان کر چکے ہیں اور وہاں ہم نے دلیل دی ہے کہ اللہ تعالی کے نام اس مخصوص عدد میں محصور نہیں ہیں، نیز یہ کہنا کہ اللہ کے نام 99 کے عدد میں محصور ہیں اس چیز پر اہل علم کے اقوال کے ساتھ رد بھی ذکر کیا ہے۔
اسی طرح سوال نمبر: (48964) کے جواب میں آپ کی مزید تفصیلات ملیں گے کہ جن ناموں کا اطلاق اللہ تعالی پر کرنا صحیح ہے اس کیلیے قاعدہ اور ضابطہ کیا ہے؟
جب کہ ترمذی میں جو روایت 99 ناموں میں محصور کرنے والی آتی ہے وہ ضعیف ہے، اس کو امام ترمذی نے خود اور دیگر اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"یہ حدیث غریب ہے [یعنی ضعیف ہے، جیسے کہ آگے امام ترمذی کی بیان کردہ تفصیل سے واضح ہو گا] یہ روایت ہمیں کئی ایک نے صفوان بن صالح سے بیان کی ہے، اور ہم اس حدیث کو صرف صفوان بن صالح کی سند سے ہی جانتے ہیں، صفوان بن صالح محدثین کے ہاں ثقہ ہے، تاہم یہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند سے مرفوعا کئی سندوں کے ساتھ آتی ہے، اور ہمیں اس حدیث کی کئی صحیح اسانید معلوم ہونے کے باوجود 99 ناموں کی تفصیل صرف اسی سند میں [صفوان بن صالح کے واسطے سے]ملتی ہے۔ اس حدیث کو آدم بن ابی ایاس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند کے علاوہ ایک اور سند سے بیان کیا ہے اور اس میں بھی ناموں کی تفصیل ذکر کی ہے ، لیکن اس کی بھی کوئی صحیح سند نہیں ہے۔"
" سنن الترمذي " ( 5 / 530 – 532 )
اس حدیث کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی " التلخيص الحبير " ( 4 / 172 ) میں ضعیف قرار دیا ہے، نیز ابن حزم اور بیہقی وغیرہ سے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دینا نقل کیا ہے۔
اسی طرح اس حدیث کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی " مجموع الفتاوى " ( 22 / 482 ) ضعیف قرار دیا ہے ۔
بہت سے علمائے کرام نے کتاب و سنت میں ذکر ہونے والے اللہ تعالی کے اسما و صفات یک جا جمع کرنے کی کوشش کی ہے، ان علمائے کرام میں شیخ محمد بن صالح عثیمین بھی شامل ہیں، انہوں نے اپنی کتاب: " القواعد المثلى في صفات الله وأسمائه الحسنى " میں مقدور بھر محنت کے بعد متعدد اسمائے حسنی ذکر کئے ہیں، آپ کو ان کی تفصیلات درج ذیل لنک میں مل جائیں گی:
https://ar.islamway.net/book/25873
سوم:
اور اللہ تعالی کی صفات کے بارے میں یہ ہے کہ انہیں یہاں بیان کرنا ممکن نہیں، اس بارے میں مفید تفصیلات پہلے سوال نمبر: (39803) کے جواب میں گزر چکی ہیں، اس لیے ان کا مطالعہ بھی کریں۔
شیخ ابن عثیمین نے اپنی اوپر ذکر شدہ کتاب میں اللہ تعالی کی صفات کے حوالے سے مفید قواعد ذکر کئے ہیں، جو کہ آپ درج ذیل لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں:
https://ar.islamway.net/book/25873
اللہ تعالی کی تمام صفات کو کتاب و سنت سے یک جا جمع کرنے کے حوالے سے بھی بعض محقق علمائے کرام نے ان تمام صفات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے، اور اس کے متعلق سب سے اچھی کاوش شیخ علوی بن عبد القادر السقاف کی ہے، ان کی تالیف کا نام ہے: " صفات الله عز وجل الواردة في الكتاب والسنة " آپ ان کی یہ کتاب ان کی ویب سائٹ سے درج ذیل لنک کے ذریعے پڑھ سکتے ہیں:
https://dorar.net/article/1221
واللہ اعلم.