ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

صلہ رحمی کے لیے اصول اور ضابطہ

سوال

کیا میری پھوپھی کا بیٹا ایسے رشتہ داروں میں شامل ہے جس کے ساتھ صلہ رحمی کرنا واجب ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یقیناً آپ کی پھوپھی کا بیٹا آپ کے ان رشتہ داروں میں شامل ہے جن کے ساتھ صلہ رحمی کرنا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے، لیکن کیا وہ ان رشتہ داروں میں شامل ہے جن کے ساتھ صلہ رحمی واجب ہو؟ اس بارے میں علمائے کرام کی مختلف آرا ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ: رشتہ دار دو قسم کے ہوتے ہیں: محرم رشتہ دار اور غیر محرم رشتہ دار۔ محرم رشتہ دار وہ ہوتا ہے کہ اگر دو رشتہ دار آپس میں مرد اور عورت ہوں تو ان کا باہمی نکاح جائز نہ ہو، مثلاً: باپ، ماں، بہن، بھائی، دادا، دادی اوپر تک ، نانا ، نانی اوپر تک ، اولاد، پوتے اور پوتیاں نیچے تک، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالائیں وغیرہ ۔

جبکہ چچا، پھوپھی، ماموں اور خالاؤں کی اولاد محرم رشتہ دار نہیں ہیں؛ کیونکہ ان کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے۔

غیر محرم رشتہ دار ان کے علاوہ ہیں، مثلاً: پھوپھی کا بیٹا اور بیٹی، ماموں کا بیٹا اور بیٹی اور اسی طرح دیگر رشتہ دار ہیں۔

تو کچھ فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ صرف محرم رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا واجب ہے، جبکہ غیر محرم رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔ یہ احناف کا موقف ہے، اسی طرح مالکی فقہائے کرام کے ہاں یہ غیر مشہور موقف ہے، اور حنابلہ میں سے ابو الخطاب کا موقف ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر تمام رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک واجب ہوتا تو ساری بنی آدم کے ساتھ حسن سلوک واجب ہوتا، جو کہ ناممکن ہے، لہذا ان رشتہ داروں کی حد بندی کرنا لازم تھا کہ جن کے ساتھ صلہ رحمی اور تکریم کرنا لازم اور قطع رحمی حرام ہے، تو ایسے رشتہ دار وہی ہیں جو محرم ہیں۔

انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ: (بیوی کی پھوپھی کے ساتھ نکاح نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کی خالہ کے ساتھ نکاح کیا جائے۔) اس حدیث کو بخاری اور مسلم: (1408) نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طبرانی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے کہ: (اگر تم ایسا کرو گے تو تم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ قطع رحمی کرو گے۔) اس حدیث کو ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ اسی طرح امام ابو داود کی المراسیل میں عیسی بن طلحہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منع فرمایا کہ بیوی کے رشتہ داروں میں سے کسی سے نکاح کیا جائے، مبادا قطع رحمی ہو جائے۔" ختم شد
"الدراية في تخريج أحاديث الهداية" (2/56)

اس حدیث کو دلیل اس طرح بنایا گیا ہے جیسے کہ مالکی فقہائے کرام میں سے علامہ قرافی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صلہ رحمی کے آٹھویں واجب کا بیان: الشیخ طرطوشی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کچھ علمائے کرام کا کہنا ہے: صلہ رحمی وہاں واجب ہو گی جہاں محرم رشتہ داری ہو گی، اور محرم رشتہ داری اسے کہتے ہیں کہ جب دو رشتہ داروں میں سے ایک مرد ہو اور دوسرا عورت تو دونوں آپس میں نکاح نہ کر سکیں، جیسے کہ والد، ماں، بھائی، بہن، دادا دادی، نانا نانی اوپر تک، اسی طرح اولاد اور اولاد کی اولاد نیچے تک، چچا، پھوپھی، ماموں، اور خالائیں ۔لیکن ان رشتہ داروں کی اولادیں واجب صلہ رحمی میں شامل نہیں ہیں؛ کیونکہ ان کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے۔ اس موقف کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھ سکتے، اسی طرح بیوی کے ساتھ اس کی خالہ یا پھوپھی کو نکاح میں نہیں رکھ سکتے؛ کیونکہ اس سے قطع رحمی پیدا ہوتی ہے۔ قطع رحمی کی صورت بننے والے حرام کام سے بچنا واجب ہے، اسی طرح خالہ اور پھوپھی کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور انہیں کسی بھی قسم کی اذیت سے دور رکھنا لازم ہے، جبکہ دو چچاؤں کی بیٹیوں سے اور دو مامووں کی بیٹیوں سے بیک وقت نکاح کیا جا سکتا ہے اگرچہ وہ بھی آپس میں سوتن پن کا اظہار کریں گی اور قطع تعلقی کریں گی؛ ان دونوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنے کی اجازت اس لیے ہے کہ ان دونوں کے درمیان صلہ رحمی کرنا واجب نہیں ہے۔" ختم شد
"الفروق" (1/147)

اس مسئلے میں دوسرا موقف یہ ہے کہ ہر رشتہ دار کے ساتھ صلہ رحمی کرنا واجب ہے، محرم رشتہ دار اور غیر محرم رشتہ دار کسی میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ احناف، مالکی فقہائے کرام کے ہاں مشہور اور امام احمد نے اسے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، شافعی فقہائے کرام نے اسے مطلق رکھا ہے چنانچہ انہوں نے محرم اور غیر محرم رشتہ دار کی قید نہیں لگائی۔
"الموسوعة الفقهية الكويتية" (3/83)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ مطالعہ کریں: سفارینی رحمہ اللہ کی کتاب: "غذاء الألباب" (1/354) اور اسی طرح: "بريقة محمودية" (4/153)۔

اس مسئلے میں دیگر اقوال بھی ہے جیسے کہ سبل السلام : (2/628) میں ہے کہ:
"واضح رہے کہ علمائے کرام کا ایسی رشتہ داری کی حد بندی میں اختلاف ہے جس کے ساتھ صلہ رحمی واجب ہے، چنانچہ ایک قول یہ ہے کہ: اس سے مراد وہ رشتہ دار ہے کہ اگر دوسرا جنس مخالف ہو تو دونوں میں نکاح جائز نہ ہو، اس بنا پر: چچا اور ماموں کی اولاد ایسے رشتہ داروں میں شامل نہیں ہوتی۔ اس قول کے قائل نے اپنے موقف کے لیے دلیل اس بات سے لی ہے کہ بیوی کے ساتھ اس کی پھوپھی اور خالہ کو عقد ِ نکاح میں نہیں رکھا جا سکتا؛ کیونکہ اس طرح پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی میں قطع رحمی پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ ایک موقف یہ بھی ہے کہ کوئی ایسا رشتہ دار جو وراثت میں حصہ لے سکتا ہے، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وراثت کے متعلق فرمان میں ہے: (پھر قریب ترین شخص کو وراثت میں سے حصہ دو) ایک اور موقف یہ بھی ہے کہ: جس کے ساتھ بھی آپ کی رشتہ داری بنتی ہے چاہے وہ وارث بن سکے یا نہ بن سکے۔

صلہ رحمی کے بھی کچھ مراتب ہیں، جیسے کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں: صلہ رحمی کے مختلف درجات ہیں، چنانچہ کم سے کم درجہ یہ ہے کہ تعلق ختم نہ کیا جائے بلکہ جوڑا جائے چاہے وہ کلام اور صرف سلام کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، پھر صلہ رحمی انسان کی ذاتی قدرت اور ضرورت کے حساب سے مختلف ہو سکتی ہے؛ چنانچہ کچھ تو ان میں سے واجب ہے، کچھ مستحب ہیں۔ لہذا اگر کوئی شخص کسی درجے میں صلہ رحمی کر رہا ہو، لیکن صلہ رحمی مطلوبہ انداز یا مقدار میں نہ ہو تو اسے قطع رحمی کرنے والا نہیں کہہ سکتے، لیکن اگر کوئی شخص قدرت اور مناسبت کے باوجود صلہ رحمی نہیں کرتا تو اسے صلہ رحمی کرنے والا کبھی نہیں کہیں گے۔

علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
صلہ رحمی کے قابل رشتہ داریاں دو قسم کی ہوتی ہیں: عامہ اور خاصہ
عامہ سے مراد ایسی رشتہ داری ہے جو دینی بنیادوں پر ہو، ایسی رشتہ داری کو باہمی مودت، نصیحت، عدل ، انصاف ، اور مستحب حقوق کی ادائیگی سمیت واجب حقوق کی ادائیگی کے ذریعے جوڑنا لازم ہے۔

جبکہ خاص رشتہ دار پر مال خرچ کرنا، حال دریافت کرنا، اور غلطیوں کوتاہیوں سے صرف نظر کرنا شامل ہے۔" ختم شد

اس مسئلے کے حوالے سے اہل علم کا مندرجہ بالا کلام ہے، لیکن محترم بھائی آپ کو معلوم ہے کہ صلہ رحمی میں بہت بڑا اجر اللہ تعالی کی طرف سے ملتا ہے، جبکہ قطع رحمی کی صورت میں اللہ تعالی کی طرف سے سخت عذاب کی وعید ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ صلہ رحمی کرنے کے لیے انسان کو دوڑ دھوپ کرنی چاہیے، قطع رحمی سے بچنا چاہیے، لہذا اختلافی موقف سے بچتے ہوئے اور دینی طور پر محتاط عمل اپناتے ہوئے آپ اپنی پھوپھی کے بیٹے کے ساتھ حسب استطاعت حسن سلوک کریں؛ آپ کے اس اجر کا ثواب اللہ تعالی کے ہاں کبھی ضائع نہیں ہو گا۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (12292 ) اور (4631 )کا جواب ملاحظہ کریں۔

اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنے پسندیدہ کام کرنے اور اپنی رضا کے موجب اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب