جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ریکارڈ شدہ سجدہ تلاوت کی آیت سننے پر کیا سجدہ تلاوت کریگا؟

73402

تاریخ اشاعت : 10-03-2015

مشاہدات : 12379

سوال

ایک مسلمان پر سجدہ تلاوت کرنا کب واجب ہوتا ہے؟ اور اس کیلئے ہم پر کیا کرنا واجب ہے؟ اور کیا ہم سوتے وقت قران مجید سن سکتے ہیں؟ یعنی کہ میں سو جاؤں اور قرآن مجید کی تلاوت چلتی رہے؟
اور اگر میں کمپیوٹر پر قرآن مجید کی تلاوت سن رہا ہوں اور سجدہ تلاوت کی آیت آئے تو میں کیا کروں؟
اس متعلق بھی وضاحت فرما دیں کہ سورہ مریم میں ایک آیت ہے کہ جب ہم اللہ کی آیات سنیں تو ہمیں روتے ہوئے سجدے میں گر جانا چاہیے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:
قرآن مجید میں سجدہ تلاوت  پندرہ مقامات پر آیا  ہے، اور ان سب کا بیان سوال نمبر: (5126) کے جواب میں پہلے گزر چکا ہے۔

دوم:
ان تمام جگہوں پر سجدہ تلاوت کرنا تلاوت کرنے  اور سننے والے پر مستحب ہے، واجب نہیں ہے، سجدہ تلاوت کا ارادہ ہو تو تکبیر کہے، اور سجدہ کرے، سجدے میں وہی دعا کر سکتا ہے جو نماز کے سجدے میں کرتا ہے، اس کے بعد بغیر تکبیر کہے سجدہ سے سر اٹھائے، اس میں تشہداور سلام نہیں ہے، اور اگر سجدہ تلاوت نماز میں ہے تو سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے بھی تکبیر کہے ۔
اس بارے میں مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (22650) اور (4890) کا جواب ملاحظہ کریں

سوم:
سوتے وقت قرآن مجید سننے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید کی تلاوت سننا دلی سکون اور شرح صدر کا باعث ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ) خبر دار! اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے[الرعد:28]

چہارم:
کمپیوٹر یا ٹیپ ریکارڈر سے تلاوت سنتے ہوئے  سجدہ تلاوت کی آیت پر سجدہ کرنے سے متعلق ظاہرحکم  یہی ہے کہ اس وقت سجدہ کرنا شرعی عمل نہیں ہے، متقدم علمائے کرام نے اسی سے ملتے جلتے ایک مسئلہ کے بارے میں صراحت سے لکھا ہے ، جیسا کہ "فتاوی عالمگیری"(1/133) فقہ حنفی کی کتاب میں ہے کہ:
"اگر کسی نے سجدہ تلاوت والی آیت کی گونج سنی تو اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوگا" انتہی
اور یہی صورت  ٹیپ ریکارڈر وغیرہ سے تلاوت سننے کی ہے۔

اسی متعلق شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"اگر انسان  ٹیپ ریکارڈر سے قرآن کریم کی تلاوت سن رہا ہو ، اور سجدہ تلاوت والی آیت پڑھے تو کیا سجدہ کریگا؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"تلاوت سننے والے کیلئے سجدہ کرنا اسی وقت جائز ہوگا جب تلاوت کرنے والا بھی سجدہ کرے، کیونکہ آپ  کو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  نے سورہ نجم کی تلاوت سنائی تو سجدہ نہیں کیا، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سجدہ فرمایا، تو اس سے معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت کو سجدہ تلاوت ترک کرنے پر کچھ نہیں کہا، اسی طرح اس حدیث میں یہ بھی دلالت ہے کہ تلاوت سننے والا اس وقت تک سجدہ نہ کرے جب تک تلاوت کرنے والا سجدہ نہیں کرتا" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (11/415) اسی سے ملتے جلتی گفتگو "الشرح الممتع" (4/133) میں بھی ہے۔

پنجم:
سورہ مریم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے( جس کی وضاحت مطلوب ہے ):
( إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَن خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا )
ترجمہ: اور جب ان پر رحمن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔
تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے انبیائے کرام، رسل، اور اللہ  کےہدایت یافتہ و چنیدہ بندوں کی  مدح سرائی ہے کہ وہ اللہ سے کمال خشیت ، اور بار گاہِ الہی میں عاجزی و انکساری کی وجہ سے جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔

اسی آیت کی وجہ سے علمائے کرام نے تلاوت قرآن کرتے ہوئے یا سنتے ہوئے رونے کو مستحب قرار دیا ہے،  یہی وجہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب اس آیت کو پڑھتے تو نہ رونے کی وجہ سے اپنے آپ کو سرزنش کرتے ہوئے فرماتے: "سجدہ تو کر لیا، وہ رونے کی کیفیت کہا ں ہے؟"
اسی طرح تلاوتِ قرآن سنتے وقت  اہل علم کی کیفیت  ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
( قُلْ آمِنُواْ بِهِ أَوْ لاَ تُؤْمِنُواْ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ سُجَّدًا * وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً * وَيَخِرُّونَ لِلأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا )
ترجمہ: آپ کہہ دیں: تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان پر جب تلاوت   کی جاتی ہے تو اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں[107] اور کہتے ہیں: ہمارا پروردگار پاک ہے، بیشک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہونے والا ہے[108] اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں، اور انکا خشوع زیادہ ہو جاتا ہے۔[ الإسراء: 107-109]

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں کما حقہ خشیت، اور کما حقہ تقوی اختیار کرنے والوں میں سے بنائے۔

واللہ  اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب