جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

طلاق رجعى اور طلاق بائن والى عورت دوران عدت كن اشياء سے اجتناب كرے گى

سوال

ميں نے ابھى اپنے خاوند كو طلاق دى ہے اور يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ دوران عدت مجھ پر كيا واجبات ہيں، كيا اس كا يہ معنى ہے كہ ميں انٹرنيٹ پر مردوں سے بات چيت بھى نہيں كر سكتى ؟
اور كيا ميرے والد كے دوست يا والدہ كے دوست آ كر مجھے لے جائيں اور پھر واپس چھوڑ جائيں ايسا جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يہ معلوم ہونا چاہيے كہ عورت اپنے خاوند كو طلاق نہيں دے سكتى، اسے طلاق كا حق حاصل نہيں، بلكہ طلاق كا حق تو خاوند كو ہے، اور پھر كتاب اللہ ميں طلاق اور اس كے متعلقہ مسائل ميں خاوند كو خطاب ہے نہ كہ بيويوں كو.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور جب تم عورتوں كو طلاق دے اور وہ اپنى عدت پورى كر ليں يا تو انہيں اچھى طريقہ سے روك لو يا پھر انہيں اچھے طريقہ سے چھوڑ دو البقرۃ ( 231 ).

اور ارشاد بارى تعالى ہے:

اگر تم عورتوں كو ہاتھ لگانے مہر مقرر كرنے سے قبل ہى طلاق دے دو تو تم پر اس ميں كوئى گناہ نہيں البقرۃ ( 236 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سےنكاح كرو اور پھر انہيں ہاتھ لگانے سے قبل ہى طلاق دے دو تو تمہارے ليے ان پر كوئى عدت نہيں جسے شمار كرو الاحزاب ( 49 ).

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب تم عورتوں كو طلاق دو ت وانہيں ان كى عدت ( كے آغاز ) ميں طلاق دو، اور عدت شمار كرو، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے الطلاق ( 1 ).

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" طلاق تو اس كا حق ہے جس نے پنڈلى پكڑى "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2081 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 7 / 108 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

عورت كى رغبت پر خاوند كو مال دے كر جو عليحدگى ہوتى ہے اسے خلع كہا جاتا ہے، وہ اس طرح كہ عورت اپنے خاوند سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے اسے مہر واپس كرے يا پھر جو خاوند مطالبہ كرتا ہو وہ دے، تو بيوى كى رغبت پر وہ اسے چھوڑ دے گا اور يہ فسخ نكاح ہے نہ كہ طلاق، اور اس ميں عورت كى عدت ايك حيض ہے.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 14569 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے.

دوم:

جب خلع ہو جائے تو عورت فورى طور پر بيوى اجنبى عورت بن جاتى ہے، اس كے ليے نہ تو اس عورت سے خلوت كرنى جائز ہے، اور نہ ہى اس ميں رجوع ہوتا ہے، ہاں يہ ہے كہ اگر وہ اس كو واپس اپنے عقد ميں لانا چاہے تو پھر نيا نكاح اور نيا مہر پورى شروط كے ساتھ ہوگا.

اگر خلع والى عورت كى عدت ايك حيض ـ يا پھر اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ـ گزر جائے تو عورت كے ليے جائز ہے وہ جس سے چاہے شادى كر سكتى ہے، اور اس نكاح ميں مكمل شرائط مہر ولى اور گواہ وغيرہ ہونا ضرورى ہيں.

ليكن اگر خاوند نے بيوى كو پہلى يا دوسرى طلاق دى ہو تو بيوى كے ليے دوران عدت اپنے خاوند كے گھر سے نكلنا جائز نہيں، اور نہ ہى خاوند كے ليے جائز ہے كہ وہ اسے دوران عدت اپنے گھر سے نكالے، جب عدت گزر جائے تو وہ اس سے اجنبى ہو جائيگى.

اس ميں حكمت يہ ہے كہ ہو سكتا ہے خاوند دوران عدت اپنى بيوى كى طرف مائل ہو جائے اور وہ اس سے رجوع كر لے، اور شريعت اسلاميہ اس كى ترغيب دلاتى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم انہيں ان كے گھر سے نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں الا يہ كہ وہ واضح اور كھلى بے حيائى كريں، يہ اللہ كى حدود ہيں جو اللہ كى حدود سے تجاوز كريگا اس نے اپنے آپ پر ظلم كيا آپ نہيں جانتے كہ ہو سكتا ہے اللہ تعالى كوئى معاملہ پيدا كر دے الطلاق ( 1 ).

دوران عدت عورت كے ليے اپنے خاوند كے سامنے آنا اور اس كے سامنے خوبصورتى اور بناؤ سنگھار كرنا جائز ہے، اور اسى طرح وہ اس كے بات چيت اور خلوت بھى كر سكتى ہے، ليكن خاوند اپنى بيوى سے رجوع كرنے كے بعد ہى مجامعت كر سكتا ہے، يا پھر رجوع كى نيت سے جماع كر لے.

اس ليے جب خاوند اپنى بيوى كو تين طلاقوں ميں سے آخرى طلاق دے دے، يا پھر پہلى يا دوسرى طلاق دے دے اور اس كى عدت گزر گئى ہو تو يہ عورت اس شخص كے ليے اجنبى ہو جاتى ہے، نہ تو اس كے ساتھ خلوت كرنى حلال ہوگى اور نہ ہى اسے ديكھنا جائز ہے.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 21413 ) اور ( 36548 ) كے جوبات ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

عدت كى سارى اقسام كا بيان سوال نمبر ( 12667 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا بھى مطالعہ كريں.

يہاں اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ جس مطلقہ عورت كو حيض آتا ہو اس كى عدت تين حيض ہے، اور جسے حيض نہيں آتا يعنى ابھى چھوٹى عمر كى ہو يا پھر بڑى عمر كى ہو اور حيض سے نااميد ہو چكى ہو اس كى عدت تين ماہ ہوگى، اوپر بيان كردہ سوال نمبر كے جواب ميں اس كى مزيد تفصيل بيان ہوئى ہے، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

سوم:

عورت كے ليے اجنبى اور غير محرم مردوں كے ساتھ جانا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے ليے انٹرنيٹ كے ذريعہ غير محرم مردوں سے بات چيت كرنا جائز ہے، اس كے متعلق بادلائل تصيلى بيان اور علماء كرام كے فتاوى جات سوال نمبر ( 34841 ) اور ( 6453 ) اور ( 10221 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكے ہيں.

اس بنا پر عور كے ليے دوران عدت خوشبو لگانا اور زيور وغيرہ پہننا اور بناؤسنگھار كرنا ممنوع نہيں، ليكن اگر خاوند فوت ہو جائے تو اس عدت ميں يہ اشياء ممنوع ہونگى، طلاق رجعى كى عدت ميں تو اس كے ليے خاوند كے گھر سے نكلنا حرام ہے، ليكن غير محرم مردوں كے ساتھ جانا اور ان سے بات چيت كرنا تو ہر حالت ميں حرام ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب